گوانتانامو بے جیل کے پاکستانی نژاد قیدی ماجد خان کی امریکی مظالم کی خوفناک داستان
گوانتانامو بے جیل کے ایک پاکستانی نژاد قیدی نے پہلی مرتبہ سی آئی اے کی ان انتہائی پرتشدد اور ظالمانہ تکنیکوں کو کھلے عام بیان کیا ہے جو نائن الیون حملوں کے بعد گرفتار کیے گئے لوگوں پر استعمال کی گئیں۔
امریکا نائن الیون حملوں کے بعد گرفتار کیے گئے لوگوں پر استعمال کی گئی انتہائی پرتشدد اور ظالمانہ تکنیکوں کو خفیہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا رہا ہے۔
القاعدہ کے لیے پیغام رساں کا کام کرنے والے امریکی شہر بالٹی مور کے سابق رہائشی ماجد خان نے جمعرات کے روز عدالت کو بتایا کہ 'بلیک سائٹس‘ کے نام سے مشہور سی آئی اے کی خفیہ جیلوں میں ان کے ساتھ انتہائی ظالمانہ سلوک کیا گیا۔ سی آئی اے کے اہلکاروں نے ان سے معلومات حاصل کرنے کی کوشش میں ایسی ٹارچر تکنیکوں کا استعمال کیا جس سے وہ ہر وقت خوفزدہ رہنے لگے، انہیں ہیلوسینیشن ہونے لگی یعنی ہر وقت مختلف طرح کی شکلیں نگاہوں کے سامنے دکھائی دینے اور طرح طرح کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔ انہوں نے بتایا کہ تشدد کا سلسلہ مسلسل کئی دنوں تک جاری رکھا جاتا تھا۔
انتہائی پرتشدد تکنیک کا استعمال
یہ پہلا موقع ہے جب کیوبا میں قائم امریکی اڈے میں رکھے گئے کسی ہائی پروفائل قیدی نے اپنے اوپر ہونے والے تشدد کے بارے میں کسی کھلی عدالت میں گواہی دی ہے۔ امریکا قیدیوں پر اس ظالمانہ کارروائیوں کو ”تفتیش کا بہتر" طریقہ قرار دیتا ہے مگر دنیا کے بیشتر حصوں میں اسے تشدد ہی قرار دیا جاتا ہے۔ ماجد خان نے اپنے اوپر ہونے والی زیادتیوں کا ذکر کرتے ہوئے کہا،”مجھے لگا کہ میں اب مرنے ہی والا ہوں۔"
ماجد خان نے بتایا کہ انہیں برہنہ کرکے کئی دنوں تک چھت سے لٹکاے رکھا اور مسلسل جگائے رکھنے کے لیے برف والا سرد پانی بار بار ڈالا جاتا تھا۔ واٹر بورڈنگ یعنی ان کا سر پانی میں ڈبوئے رکھا جاتا تھا یہاں تک کے وہ ڈوب کر مرجانے کے قریب پہنچ گئے تھے۔ پھر تفتیش کار سر باہر نکالتے ہی ان کے منہ اور ناک میں مزید پانی ڈال دیا کرتے تھے۔ انہیں بری طرح پیٹا جاتا تھا۔ کئی مرتبہ زبردستی انیما یعنی پیٹ خالی کرنے کی دوا دی گئی، جنسی تشدد کیا گیا اور بھوکا رکھا گیا۔ یہ سب کچھ ان بیرون ملک جیلوں میں ہوا جن کا پتہ خفیہ رکھا گیا۔
ماجد خان نے اپنی روداد عدالت کو بتاتے ہوئے کہا،”میں ان سے التجا کرتا رہا کہ رک جائیں اور قسمیں کھائیں کہ مجھے کچھ نہیں معلوم۔ اگر میرے پاس کوئی معلومات ہوتیں تو میں پہلے ہی دے چکا ہوتا۔ میرے پاس بتانے کے لیے اور کچھ بھی نہیں تھا۔"
گوانتانامو بے میں یہ عدالتی سماعت دو دن تک جاری رہے گی۔ جمعرات کے روز پہلے دن کی سماعت کے دوران انہوں نے 39 صفحات پر مشتمل اپنے بیان سے کچھ حصہ پڑھ کر سنا یا۔ پنٹاگون کی طرف سے منتخب فوجی اہلکاروں کا پینل، جسے کنویننگ اتھارٹی کا نام دیا گیا ہے، ماجد خان کو 25 سے40 برس تک قید کی سزا سنا سکتا ہے۔ البتہ ہوسکتا ہے کہ انہیں اس سے کم ہی وقت جیل میں گزارنا پڑے کیونکہ انہوں نے حکام سے کافی تعاون کیا ہے۔
آئندہ برس رہا ہونے کی امید
حکام کے ساتھ ایک معاہدہ، جس کے بارے میں عدالت کو نہیں بتایا گیا، کے تحت جیوری کی جانب سے دی جانے والی سزا کو کنویننگ اتھارٹی گیارہ برس تک کم کرسکتی ہے۔ سن 2012 سے قید میں گزارے گئے ان کے وقت کو بھی اس میں شمار کیا جائے گا جب انہیں قصوروار قرار دیا گیا تھا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ 41 سالہ ماجد خان کو اگلے برس تک رہائی مل سکتی ہے اور انہیں کسی تیسرے ملک میں رکھا جا سکتا ہے کیونکہ وہ پاکستان واپس نہیں جا سکتے جہاں کے وہ شہری ہیں۔ فی الحال یہ معلوم نہیں کہ انہیں کس تیسرے ملک میں رکھا جائے گا۔
ماجد خان کے ساتھ ہونے والے سلوک کی کچھ تفصیلات امریکی سینیٹ کی انٹلی جنس کمیٹی کی سن 2014 میں شائع ہونے والی رپورٹ میں بھی موجود ہیں۔ اس میں سی آئی اے پر الزام لگایا گیا ہے کہ اس نے القاعد ہ سے وابستہ قیدیوں پر اپنی قانونی حدود سے کہیں زیادہ تشدد کیا اور اس حوالے سے امریکی قوم سے بھی جھوٹ بولا۔
ماجد خان نے اس رپورٹ سے اتفاق کرتے ہوئے کہا،”میں ان کے ساتھ جتنا تعاون کرتا اور بتاتا وہ اتنی ہی زیادہ مجھ پر تشدد کرتے۔" سی آئی اے کے بلیک سائٹس میں تین برس تک رکھنے کے بعد ستمبر 2006 میں انہیں گوانتا نامو بے لے جایا گیا۔ انہوں نے کہا بلیک سائٹس میں انہیں ہمیشہ تاریکی میں رکھا گیا اور محافظوں اور پوچھ گچھ کرنے والوں کے ساتھ کسی سے بھی ان کا رابطہ نہیں تھا۔
ماجد خان القاعدہ کے لیے پیغام رساں ہونے اورپایہ تکمیل تک نہیں پہنچنے والے کئی منصوبوں میں شامل ہونے کا اعتراف کرچکے ہیں۔ انہوں نے سی آئی اے حکام کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت سازش کرنے اور دہشت گردی میں معاونت کے الزامات قبول کیے تھے۔ اس معاہدے کے تحت تعاون کرنے کے عوض انہیں کم سزا دینے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔
کون ہیں ماجد خان؟
پاکستانی شہری ماجد خان سعودی عرب میں پیدا ہوئے۔ ان کا خاندان 1990کی دہائی میں امریکا منتقل ہو گیا۔ انہوں نے بالٹی مور کے ایک کالج سے گریجویشن کے بعد واشنگٹن میں ایک دفتر میں ٹیکنالوجی سے متعلق ملازمت شروع کی۔ انہوں نے اسی دفتر سے نائن الیون کو پنٹاگون پر جہاز گرنے کے بعد دھواں اٹھتا ہوا دیکھا تھا۔
وہ اسی سال اپنی والدہ، جنہیں وہ اپنی زندگی کی سب سے اہم شخصیت قرار دیتے ہیں، کی وفات کے بعد انتہاپسندی کی جانب راغب ہوئے۔ ماجد خان نے اپنے اقدامات کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ان کے لیے معذرت کی۔ انہوں نے کہا وہ اب صرف اپنی اہلیہ اور دو بیٹیوں کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں جن کی پیدائش ان کی قید کے دوران ہوئی۔ ماجد خان نے کہا کہ انہوں نے ان کو گرفتار کرنے اور اذیت دینے والوں کو معاف کردیا ہے۔
ماجد خان کا کہنا تھا،”میں نے اپنے کیے گئے برے کاموں کا ازالہ کرنے کی کوشش کی ہے اور اسی لیے میں نے فرد جرم قبول کی اور امریکی حکومت سے تعاون کیا۔" ماجد گوانتانامو میں تفتیشی پروگرام سے گزرنے والے ان ہائی پروفائل قیدیوں میں سے پہلے قیدی ہیں، جنہیں کیوبا میں امریکی فوجی اڈے پر قائم فوجی ٹریبیونل مجرم قرار دے گا اور سزا سنائے گا۔
گوانتانامو بے میں قید خالد شیخ محمد سمیت پانچ افراد کا کیس ابتدائی مراحل میں ہے اور ایک جج کا کہنا ہے کہ اگلے برس سے قبل اس کی سماعت شروع ہونا مشکل ہے۔ اس فوجی اڈے پر ابھی مجموعی طورپر 39 قیدی ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔