پاکستانی سکھ کی پی ایچ ڈی۔۔ خوشیاں بھارت سمیت کئی ممالک میں
بابا گورو نانک کے شہر ننکانہ صاحب کے رہائشی 42 سالہ سکھ استاد سردار کلیان سنگھ کلیان نے اپنی پی ایچ ڈی مکمل کر لی ہے۔ وہ پاکستانی تاریخ میں پہلے سکھ شہری ہیں جنہوں نے ڈاکٹریٹ مکمل کی ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے اوریئنٹل کالج کے اسٹاف روم میں انہوں نے اپنے تھیسیس کا کامیاب دفاع کیا۔وائیوا انٹرویو کے کچھ ہی دیر بعد جب انسٹی ٹیوٹ آف پنجابی اینڈ کلچرل سٹیدیز پنجاب یونیورسٹی کی ڈائریکٹر ڈاکٹر نبیلہ رحمٰن نے سردار کلیان سنگھ کی کامیابی کا اعلان کیا تو اس موقعے پر ننکانہ صاحب سے خاص طور پر لاہور آئے ہوئے درجنوں سکھوں کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تیر رہے تھے۔
کلیان سنگھ کی 80 سالہ غیر تعلیم یافتہ والدہ ترن کور نے اس موقعے پر فرط جذبات سے بیٹے کا ماتھا چوما اور اسے خوشی سے گلے لگا کر مبارک باد دی۔
مبارک باد کا سلسلہ
دنیا بھر میں سکھ برادری پہلے پاکستانی سکھ کی پی ایچ ڈی مکمل ہونے کی خوشی منا رہی ہے۔ کینیڈا، امریکہ اور برطانیہ کے علاوہ بھارت سے بھی مبارکبادوں کے ٹیلی فون موصول ہو رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر بھی کلیان سنگھ کے دوستوں کی طرف سے ودھائیوں کا سلسلہ جاری ہے۔
دنیا بھر کے پنجابی ریڈیو ٹی وی چینلوں کی طرف سے سردار کلیان کو انٹرویو کی درخواستیں موصول ہو رہی ہیں۔ ننکانہ صاحب کے گوردواروں میں شکرانے کی عبادات کا بھی انعقاد کیا گیا۔ ان کے بقول بھارتی میڈیا نے بھی حیران کن طور پر ان کی کامیابی کی خبر کو مثبت طور پیش کیا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر نیاز احمد اختر نے جمعرات کے روز انہیں چائے پر مدعو کیا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی انہیں ڈگری جاری کرنے کے لئے ضابطے مکمل کر رہی ہے۔
اسِسٹنٹ پروفیسر
وہ لاہور کی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں پنجابی کے اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنا پی ایچ ڈی کا مقالہ پنجابی کے ممتاز محقق پروفیسر ڈاکٹر نوید شہزاد کی زیر نگرانی مکمل کیا ہے۔ انہوں نے ''گورونانک کی تعلیمات میں انسان دوستی کا فلسفہ‘‘ کے موضوع پر اپنا مقالہ تحریر کیا ہے۔ چھ سو صفحات پر مشتمل اپنے تحقیقی مقالے کو انہوں نے اپنی ماں کے نام منسوب کیا ہے۔
کلیان سنگھ پنجابی مجلے لہراں کے مدیر بھی رہے اور انہوں نے کچھ عرصہ ریڈیو کے لئے بھی کام کیا۔ سانحہ کارساز میں زخمی ہونے والے سردار کلیان کہتے ہیں کہ بینظیر بھٹو سے بہت عقیدت تھی اور وہ بھی انہیں بہت عزیز رکھتی تھیں۔
'اعلیٰ تعلیم کا سفر آسان نہیں‘
ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں کلیان سنگھ نے بتایا کہ وہ اب امریکہ، برطانیہ یا یورپ کی کسی یونیورسٹی سے پوسٹ ڈوک کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اپنی آئندہ تحقیقی کاوشوں میں وہ اس بات کا کھوج لگانا چاہتے ہیں کہ کیا سوشلزم پنجابی لوگوں کی اقتصادی مشکلات کو کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے؟
ایک سوال کے جواب میں سردار کلیان سنگھ کا کہنا تھا کہ انہیں اپنی پی ایچ ڈی مکمل ہونے کی خوشی تو بہت ہے لیکن ان کے بقول اعلی تعلیم کا سفر کوئی آسان نہیں تھا۔ ''جب میں گورنمنٹ گورو نانک کالج میں پڑھتا تھا تو وہاں کے پرنسپل صاحب نے اساتذہ کی سیاست کی وجہ سے کالج سے پنجابی کا مضمون ہی ختم کر دیا تھا۔ اس لئے مجھے اپنی تعلیم پرائیویٹ طالب علم کے طور پر جاری رکھنا پڑی۔ مجھے دُکھ ہے کہ بابا گورو نانک کے شہر میں پنجابی کا مضمون ابھی تک بحال نہیں کروایا جا سکا۔
اقلیتوں کو ابھی مشکلات کا سامنا ہے
سردار کلیان سنگھ کلیان کہتے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے حوالے سے صورتحال بہتر تو ہو رہی ہے لیکن ابھی بھی انہیں بہت مشکلات کا سامنا ہے۔ لائبریری میں کتابیں دیکھتے اور رکھتے ہوئے بھی دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ بے دھیانی میں کوئی لغزش نہ ہو جائے۔ کسی اقلیتی سکالر کے لئے کئی مخصوص موضوعات پر تحقیق کرنا آسان نہیں ہے۔
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا ہے کہ دوران تحقیق ایک مسئلہ تو یہ تھا کہ گورونانک کے حوالے سے یہاں زیادہ مواد دستیاب نہیں تھا اور انہیں دنیا کے دوسرے ملکوں سے کتب منگوانی پڑیں۔ یہاں گوردوارہ ڈیرہ صاحب میں سکھوں کی ایک لائبریری ہوا کرتی تھی لیکن بہت پہلے وہ مشتعل مظاہرین کے غصے کی نذر ہو گئی تھی۔ اب حکومت دیال سنگھ لائبریری اور پنجاب پبلک لائبریری کے گورمکھی سیکشن کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
سکھ کمیونٹی کے ساتھ خاص برتاؤ
سردار کلیان کے بہت سے عزیز نہ صرف پارلیمنٹ میں ہیں بلکہ پاکستان میں نمایاں عہدوں پر کام کر رہے ہیں۔ میجر ہرچرن سنگھ پاکستان آرمی، انسپکٹر امرت سنگھ رینجرز، انسپکٹر ناریندر سنگھ موٹروے پولیس، ڈاکٹر میمپال سنگھ کنگ ایڈورڈ یونیورسٹی، پون سنگھ گورنر ہاوس لاہور میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔
وہ یہ تسلیم نہیں کرتے کہ پاکستان میں سکھوں کو امتیازی طور پر دوسری اقلیتوں پر فوقیت دی جا رہی ہے بلکہ ان کا کہنا ہے کہ سکھوں نے اسی سسٹم میں رہتے ہوئے تعلیم حاصل کر کے معاشی طور پر پاکستانی معاشرے میں کچھ گنجائش حاصل کی ہے۔ '' میرے خیال میں تعلیم ہی اقلیتوں کو آگے لے جا سکتی ہے سب اقلیتوں کو اسی ماڈل کو اپنانا چاہیئے۔ ‘‘
’ ہماری بچیاں تعلیم اور ملازمت کے معاملے میں بہت پیچھے ہیں۔ کئی والدین جبری مذہب تبدیلی کے خوف سے انہیں گھر سے نکالنے کو تیار نہیں ہیں۔ اقلیتوں کے فیملیز لاز نہ ہونے کی وجہ سے بھی بہت مشکلات ہیں۔ سن 2016 میں سکھ میرج ایکٹ اور سن 2017 میں ھندو میرج ایکٹ منظور ہوا تھا لیکن اس کے رولز آف بزنس ابھی تک نہیں بن سکے ہیں‘‘
سردار کلیان سنگھ کی خواہش ہے کہ کسی طرح ماضی کا وہ زمانہ لوٹ آئے جب معاشرے میں برداشت تھی اور مسلم آبادی اقلیتوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہتی تھی اور سب ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے تھے۔ '' مجھے ایک مسلمان ماسٹر بشیر آج بھی یاد ہیں جو بچپن میں اپنے سائیکل پر بٹھا کر مجھے اسکول لے جایا کرتے تھے۔ آج کے دور میں ایسی مثالیں ڈھونڈنا آسان نہیں ہے۔ کلیان سنگھ کلیان شادی شدہ ہیں۔ وہ تین بیٹیوں اور ایک بیٹے کے والد ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔