روسی ایل پی جی کی پہلی کھیپ پاکستان پہنچ گئی
ایک لاکھ میٹرک ٹن مائع پٹرولیم گیس کی پاکستان کو ترسیل پڑوسی ملک ایران کے ذریعے ممکن ہو سکی۔ روسی سفارتخانے کے مطابق اسلام آباد کو ایل پی جی کی دوسری کھیپ کی فراہمی کے لیے بات چیت جاری ہے۔
روس سے مائع پیٹرولیم گیس کی پہلی کھیپ پاکستان پہنچ گئی ہے۔ اسلام آباد میں روسی سفارتخانے نے منگل چھبیس ستمبر کو جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ ایل پی جی کی آمد سے رواں برس ماسکو کی طرف سے اسلام آباد کو توانائی کی ترسیل کا دوسرا بڑا مرحلہ تکمیل کو پہنچا۔
بیان کے مطابق ایک لاکھ میٹرک ٹن مائع پیٹرولیم گیس (ایل پی جی) ایران کی مدد سے پاکستان پہنچی۔ ایل پی جی کی فراہمی سے متعلق یہ ڈیل دراصل روس اور پاکستان کے مابین رواں سال کے شروع میں طے پانے والے ایک معاہدے کے تحت ممکن ہوئی۔ اسی معاہدے کے تحت روسی خام تیل کی پہلی کھیپ اس سال کے آغاز پرپاکستان پہنچی تھی۔
ایران کا کردار
روسی ایل پی جی کی پاکستان کو فراہمی ایران کے سارخس اسپیشل اکنامک زون کے ذریعے ممکن ہوئی۔ اسلام آباد میں روسی سفارتخانے نے بیان میں کہا کہ ایل پی جی کی دوسری شپمنٹ کے بارے میں مشاورت جاری ہے تاہم اس میں ایران کے کردار کے بارے میں تفصیلات نہیں بتائیں گئیں۔ مزید برآں یہ امر بھی واضح نہیں کہ اس ایل پی جی کی قمت کتنی تھی اورپاکستان کو اس پرکتنی رعایت دی گئی۔
ادھر اسلام آباد حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے روسی مائع پیٹرولیم کی قیمت چینی کرنسی یوان میں ادا کی ہے تاہم اس معاہدے کی اصل مالیت ظاہر نہیں کی گئی۔
پاکستان کی بیرونی ادائیگیاں
پاکستان کی بیرونی ادائیگیوں کا ایک بڑا حصہ توانائی کی انہی برآمدات کے لیے مختص ہے۔ ملکی تباہ حال معیشت کے پیش نظر روس کی طرف سے توانائی کی قیمت کی ادائیگی میں رعایت اور مہلت دی گئی ہے۔ اس وقت اسلام آباد حکومت ملکی تاریخ کے بدترین معاشی بحران کا شکار ہے۔ بے تحاشہ بیرونی قرضوں کے بوجھ کی وجہ سے ملک اقتصادی دیوالیہ پن کے دھانے پر کھڑا ہے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حکومت کے لیے ملکی دفاعی اخراجات اور غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی کے بعد تیسری سب سے بڑی واجب الادا رقم ملک میں قائم بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں یا آئی پی پیز کا بل ہے۔ تاہم حکومت کی جانب سے اس رقم کی ادائیگی کے باوجود گردشی قرضے کا پہاڑ پھر سے قومی خزانے پہ بوجھ بن کر کھڑا ہوجاتا ہے۔
پاکستانی ذرائع ابلاغ کی اطلاعات کے مطابق حکومت کے ذمے آئی پی پیز کے دو کھرب روپے وجب الادا ہیں، جو حکومت کو اس سال کے اخر تک ادا کرنے ہیں۔ یہ رقم اقتصادی بحران کے شکار ملک کی حکومت کے لیے ایک بڑا بوجھ ہے۔ اسی بوجھ کو کم کرنے کے لیے حکومتیں بجلی کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کرتی آئی ہیں، جس سے بنیادی طور پر بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کو ہی فائدہ ہوتا ہے۔
رواں سال جون میں صورتحال یہاں تک پہنچ چُکی تھی کہ پاکستان کے پاس بمشکل ایک ماہ کی درآمدات کو پورا کرنے کے لیے زرمبادلہ کے ذخائر باقی رہ گئے تھے۔ اسے نومبر میں 1.1 ارب ڈالر کے فنڈ جاری ہو جانے کی امید تھی لیکن بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے مزید ادائیگیوں سے قبل کئی شرائط عائد کر دیں تھیں۔
پاکستان سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ ایسا بجٹ پیش کرے گا جو آئی ایم ایف کے پروگرام سے ہم آہنگ ہو۔ اس کے علاوہ توقع تھی کہ فارن ایکسچنج مارکیٹ کا معمول کے مطابق کام بحال کیا جائے گا اور محصولات اور اخراجات میں چھ ارب ڈالر کے فرق کو ختم کرنے کے لیے اقدامات کیے جائیں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔