کبھی کے دن بڑے اور کبھی کی راتیں
مغربی ممالک کی موجودہ معاشی اور سماجی صورتحال پر نگاہ ڈالی جائے تو لگتا ہے گھڑی الٹی چل رہی ہے۔ یورپ بھر میں اس وقت بجلی اور گیس کی کمی اور شدید سردی کی آمد شہریوں کے لیے شدید مشکلات کا سبب بن چکی ہے۔
کیا آپ نے کبھی سوچا تھا کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کے باشندے بھی کبھی بجلی اور گیس کی قلت کا سامنا کریں گے؟ کیا آپ نے ماضی میں کبھی کسی برطانوی، کسی جرمن، کسی فرانسیسی یا اطالوی شہری کو اس حالت میں دیکھا ہے؟ اس وقت قریب تمام یورپی ممالک کو ایسی ہی تشویش ناک صورتحال کا سامنا ہے۔
جرمنی جو یورپ کی اقتصادی شہ رگ مانا جاتا تھا، پہلے کورونا کی وبا اور پھر یوکرین کی جنگ سے اتنا زیادہ متاثر ہوا ہے کہ اس کا سماجی ڈھانچہ ہل کر رہ گیا ہے۔ اُدھر برطانیہ، جس نے یورپی اتحاد سے خود کو علیحدہ رکھنے کا نہ صرف فیصلہ کیا تھا بلکہ بڑی حد تک یورپی قوتوں کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی تھی کہ اُسے یورپی اتحاد کی کوئی ضرورت نہیں۔
بریگزٹ کے وقت برطانیہ نے قدرے گھمنڈ کے ساتھ یورپی یونین کو اپنے لیے غیر اہم ہونے کا احساس دلایا تھا۔ اب اُسی برطانیہ میں گیس اور بجلی کی کمی کے سبب چند روز سے کچھ علاقوں میں رہ رہ کر بجلی غائب ہو جاتی ہے اور شہریوں کو شدید سردی میں بغیر ہیٹننگ کے بلیک آؤٹ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
جب میں پاکستان سے جرمنی آئی تھی تو مجھے جرمن معاشرے کی چند بنیادی چیزوں کو دیکھ کر حسرت ہوتی تھی کہ کاش پاکستان کے عوام کو بھی ایک دن یہ سب کچھ میسر ہو جائے۔ مثال کے طور پر جرمنی میں بجلی، پانی اور گیس جیسی بنیادی چیزیں اس معاشرے کے ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے شہریوں کو یکساں میسر تھیں۔ سردی میں جب درجہ حرارت نقطہ انجماد سے گر جاتا ہے تو بجلی یا گیس ہی گھروں، دفتروں اور دیگر عوامی مقامات کو گرم رکھنے کے لیے استعمال میں لائی جاتی ہے۔
ہر معاشرے کی طرح جرمن معاشرے میں بھی زیادہ تر عوام تو ہمیشہ سال کے ہر موسم کا مزہ لیا کرتے تھے۔ ان کی روزمرہ زندگی کبھی کسی چیز سے متاثر نہیں ہوا کرتی تھی لیکن جرمنی میں بے گھر افراد کے لیے بھی ہمیشہ سرچھپانے کے لیے گرم مقامات اور دن میں کم از کم ایک وقت کے گرم کھانے کا انتظام ہوا کرتا تھا۔ اس سال روس اور یوکرین کی جنگ کی وجہ سے پورے یورپ کے اندر گوناگوں مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔ خاص طور سے توانائی کا بحران کمزور طبقے کے ساتھ ساتھ متوسط طبقے کو بھی بری طرح متاثر کر رہا ہے۔
غریبوں کے ہی نہیں امیر لوگوں کے گھر بھی شام کے بعد سے ویران اور اندھیرے نظر آ رہے ہیں۔ مجھے جرمنی میں سب سے خوبصورت وقت کرسمس سے لے کر سال نو کی آمد تک کا وقت لگتا تھا۔ ہر طرف رنگین لائٹیں، جگمگاتے صحن اور بالکونیاں، ہر گھر کے آنگن میں لگے رنگ برنگے قمقمے، گھروں کے اندر ہیٹنگ یا آتش دانوں کی گرمی، کرسمس کی مخصوص سوغاتیں، گھروں سے آنے والی مزیدار کھانوں اور کیک اور کوکیز کی خوشبوئیں اور خوبصورت موسیقی کی آوازوں کا کانوں میں رس گھولنا۔ ہمیشہ سوچا کرتی تھی کہ جرمن معاشرہ کتنا مختلف اور کتنا بہتر ہے۔ یہاں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو یہ تمام چیزیں بینادی طور پر میسر ہیں۔
جب میں پاکستان میں رمضان اور عید کے مہینے میں عوامی زندگی کا موازنہ یہاں کرسمس کے ایام سے کرتی تھی تو تکلیف ہوتی تھی، اُن اسّی فیصد پاکستانی عوام کا سوچ کر جو خاص طور سے رمضان اور عید کے مہینے میں مہنگائی کے بڑھنے کے سبب اپنی چھوٹی موٹی خواہشات پورا کرنے سے محروم رہتے تھے۔ ان کے بچوں کے لیے نئے کپڑے، نئے کھلونے، تحفہ تحائف تو دور کی بات انہیں ایک وقت کا کھانا پیٹ بھر کر کھانے کے لیے میسر نہیں ہوتا۔ مجھے یاد ہے رمضان اور عید کےمہینے میں پاکستان کی کچی آبادیوں میں بنے جھونپڑیوں کی تاریکی اور ویرانی پر کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔
جبکہ جرمنی میں کرسمس اور نیو ایئر کے دوران کوئی محلہ، کوئی قصبہ یا کوئی دیہات ویران نظر نہیں آیا کرتا۔ یہاں غربت کا معیار بھی کتنا مختلف ہے۔ نام نہاد کم آمدنی والے غریب لوگ بھی سماجی زندگی میں بھرپور حصہ لیتے ہیں کیونکہ انہیں بنیادی سہولیات یکساں میسر ہیں۔
اس بار قریب تین سالوں کی کورونا بندشوں کے بعد عوام ہنسی خوشی کرسمس منانا چاہتے تھے۔ تمام تر تیاریوں کیساتھ لیکن حالات ساتھ نہیں دے رہے۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ ہو چُکا ہے۔ اس کے منفی اثرات تمام تر اشیا کی قیمتوں پر پڑے ہیں۔ متمول افراد بھی پریشان ہیں کہ گھروں کو گرم اور روشن کیسے رکھیں؟
کرسمس کی سجاوٹ اور تحائف پر کس حد تک خرچ کیا جائے؟ جرمنی میں بڑھتی ہوئی غربت معاشرے کے ان افراد کے لیے غیر معمولی مصائب کا سبب بن رہی ہے جو سماجی امداد کے محدود پیسوں پر گزر بسر کرتے ہیں۔ گھر کے کرائے، بجلی اور گیس کا بل، اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں واضح اضافہ۔ ایسے میں جاڑے کا موسم اور کرسمس اور نئے سال کی آمد۔
بچپن میں جب میری دادی ہمیں کہانیاں سنایا کرتی تھیں تو اُن کی ہر کہانی میں ہمیشہ ایک نا ایک سبق پنہاں ہوتا تھا۔ مجھے آج ان کا ایک جملہ بہت یاد آرہا ہے۔ وہ کہتی تھیں،''دیکھو ہمیشہ یاد رکھنا کہ ہر دن کے بعد رات اور ہر رات کے بعد دن آتا ہے اور کبھی دن لمبے ہو جاتے ہیں تو کبھی راتیں طویل۔ مقصد یہ کہ زندگی چاہے دنیا کے کسی خطے کی ہو، کبھی یکساں نہیں رہتی۔ حالات اور وقت کے دھارے کے ساتھ متوازن زندگی گزارنا سیکھو۔‘‘
اپنی دادی کی یہ نصحیت آج میں اپنی بیٹی تک پہنچا رہی ہوں جو ایک بار پاکستان گئی تھی تو اُس نے ننگے پیر اور پھٹے پُرانے کپڑوں میں کچرے کے ڈھیر سے کھانے کے لیے کچھ تلاش کرتے بچوں کو دیکھا تھا۔ اُس دن سے آج تک میری بیٹی نے مُجھ سے انگنت ایسے سوالات کیے، جن کا میں اُسے کوئی ٹھوس جواب نہ دے سکی۔ اُس کا ایک سوال ایسا ہے جسے میرا بس چلے تو میں بین الاقوامی برادری کے آگے رکھوں۔ وہ یہ کہ کیا اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو امیر اور غریب بنایا ہے یا اس سماجی تفریق کی وجہ خود انسان ہے؟
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔