ترکی کا زلزلہ: نقصانات کا حقیقی تخمینہ کیسے لگایا جاتا ہے؟
قدرتی آفات کی تباہی کا تخمینہ لگانا ایک انتہائی مشکل عمل ہے اور اس کے بہت مختلف نتائج سامنے آتے ہیں۔ ترکی اور شام میں آنے والے کے بعد، اس کے نقصانات کا تخمینہ لگانے کے چند اہم طریقے پیش خدمت ہیں۔
ترکی کی ''انٹر پرائز اینڈ بزنس کنفیڈریشن‘‘ کی طرف سے شائع کردہ ایک رپورٹ کے نتائج کے مطابق مشرقی ترکی میں زلزلے سے پہنچنے والے نقصانات کی لاگت 80 بلین یورو بنتی ہے جو تر کی کی مجموعی قومی پیداوار کا قریب 10 فیصد ہے۔
اس کے علاوہ ترکی کے گھروں کو پہنچنے والے نقصان کا تخمینہ 70.8 بلین ڈالر بنتا ہے۔ حالیہ زلزلے نے ترکی کی قومی آمدنی کو 10.4 بلین ڈالر کا نقصان پہنچا ہے جبکہ کام کے دنوں کا نقصان 2.9 بلین ڈالر کے برابر بنتا ہے۔
امریکی ''ڈیٹا انالیلیٹکس فرم‘‘ Verisk نے ترکی کو حالیہ ناگہانی آفت سے پہنچنے والے کم سے کم نقصانات کا اندازہ 20 بلین ڈالر لگایا ہے۔ دیگر کئی اندازے اس کے آس پاس ہی ہیں۔ ترکی کے پڑوسی ملک شام میں حالیہ زلزلے سے پہنچنے والے نقصانات کا اندازہ لگانے میں ابھی کافی وقت لگے گا۔ شام میں گرچہ زلزلہ اُسی پیمانے پر تباہی کا باعث بنا ہے جس پر کہ ترکی میں تھا لیکن اس کا نقصان ترکی کے مقابلے میں کہیں کم ہو گا۔
انسانی جانوں کے نقصان کا اندازہ کیسے لگایا جائے؟
امریکہ کی ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے مقامی آفات کے نقصانات کے ڈیٹا بیس سینٹر SHELDUS سے منسلک ایک ماہر میلانی گال کے مطابق عام طور سے ایسی آفات کے معاشی نقصانات کا حساب لگانے کے دو طریقے ہوتے ہیں۔
براہ راست اثرات
یہ اثرات وہ ہیں جو کسی واقعے یا آفت کے رونما ہونے کے فوری بعد سامنے آتے ہیں ، جیسے کہ گھروں اور زخمیوں کو پہنچنے والے نقصانات۔ جغرافیائی امور کی امریکی ماہر میلانی گال نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ براہ راست نقصانات کا اندازہ دراصل انشورس کمپنیوں کی طرف سے ان کے پیشہ ور جائزہ کار لگاتے ہیں۔
بالواسطہ اثرات
یہ دراصل ثانوی یا تیسرے درجے کے اثرات کے نتیجے میں سامنے آنے والے اثرات ہیں جیسے کہ شٹ ڈاؤن کے دوران کاروبار میں ہونے والے نقصانات، کارکنوں کی آمدنی کو پہنچنے والے نقصانات اور '' پوسٹ ٹرومیٹک اسٹرس‘‘ PTSD، جو ایک ایسی ذہنی حالت ہے جو ایک بھیانک واقعے کے بعد اس کا شکار ہونے والے افراد کی ذہنی، جسمانی اور جذباتی حالت سے ظاہر ہوتی ہے۔ اس طرح کے نقصانات کے حساب اندازہ عام طور سے اقتصادی ماڈلز کا استعمال کرتے ہوئے کیا جاتا ہے۔
میلانی گال کے بقول،'' اس طرح کے زیادہ تر واقعات کے نتیجے میں ہونے والے نقصانات کا اندازہ پیشہ ورانہ تخمینہ لگانے والوں سے حاصل نہیں کیا جاتا۔‘‘
اُدھر امریکہ ہی کی یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا میں خطرات اور ہنگامی حالات کے ''سینٹر فار رسک اینڈ اکنامک اینالیسز‘‘ کے سینیئر ریسرچ فیلو ایڈم روز ایسے اندازے لگانے والے ماہرین کی ایک ایسی ٹیم کی قیادت کرتے ہیں جس نے اس مقصد کے لیے ایک سافٹ ویئر تیار کیا،جسے '' اکنامک کون سیکوئینسس انالیسز‘‘ یا اقتصادی نتیجہ تجزیہ ٹول، E-CAT کہا جاتا ہے۔ یہ سافٹ ویئر اُس وقت استعمال میں لایا جا سکتا ہے جب تباہی کے ابتدائی پیمانے کے بارے میں کچھ بنیادی معلومات اور لوگوں کے رد عمل کے ساتھ ساتھ طرز عمل میں لچک کے بارے میں کچھ موٹے موٹے اندازے یا تخمینے دستیاب ہوں۔
تخمینے کس حد تک درست ہو سکتے ہیں؟
ایڈم روز کا کہنا ہے کہ ناگہانی آفات اور تباہ کُن واقعات کے نقصانات کا ابتدائی تخمینہ اکثر چند دنوں میں لگایا جاتا ہے، لیکن بعد میں مزید اعداد و شمار دستیاب ہونے کے بعد وہ بہتر طور پر یہ اندازے لگائے جا سکتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،'' ابتدائی تخمینوں میں اکثر تباہ شدہ انفراسٹرکچر جیسے کہ سڑکیں، پل اور یوٹیلیٹیز شامل ہوتے ہیں۔‘‘
روز کا خیال ہے کہ تجزیہ کار ان نقصانات کا اندازہ بھی لگا سکتے ہیں، اس کے لیے انہیں ''ارتھ اُوبزرویشن‘‘ یا زمین کا مشاہدہ نامی عمل کے ذریعے اور مصنوعی سیاروں اور جاسوسی طیاروں کی مدد سے جمع کیے گئے ڈیٹا کا مطالعہ کرنا ہوگا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔