مصر کا اقتصادی بحران: کیا یہ ملک دوسرا لبنان بنتا جا رہا ہے؟

اشیائے خوردونوش کی قیمتیں دگنی، تنخواہیں آدھی، بینکوں نے رقم نکالنے پر پابندی لگا دی: مصری باشندوں کو اب لبنانیوں جیسی مشکلات کا سامنا ہے، لبنان سے کہیں زیادہ نقصان دہ ہوگا۔

مصر کا اقتصادی بحران: کیا یہ ملک دوسرا لبنان بنتا جا رہا ہے؟
مصر کا اقتصادی بحران: کیا یہ ملک دوسرا لبنان بنتا جا رہا ہے؟
user

Dw

مصری پاؤنڈ کی قدر میں کمی کے ساتھ، بہت سے متوسط طبقے کے مصری باشندے پہلے کی طرح اشیائے خوردو نوش کی خریداری نہیں کر سکتے۔ اس ملک میں کرنسی کنٹرول سخت ہو گیا ہے۔

قاہرہ کے محلے 'شوبرا‘ کے رہائشی 40 سالہ اکاؤنٹنٹ اور تین بچوں کے والد احمد حسن موجودہ معاشی بحران کے نتیجے میں اشیائے خورد و نوش کی خریداری میں واضح کمی لانے کا اپنا تجربہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں، ''جب ہم خریداری کرنے جاتے ہیں تو تین کلو چاول خریدنے کی بجائے صرف ایک کلو یا ڈیڑھ کلو خریدتے ہیں۔‘‘ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے مزید کہا، ''ہم اپنے اخراجات کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہم ہر چیز کو محدود نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارے بچوں کو کچھ چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔‘‘


اکتوبر کے آخر سے مصر کی کرنسی کی قدر میں تقریباً ایک تہائی کمی واقع ہوئی ہے اور افراط زر اس وقت 20 فیصد سے زیادہ ہے۔ ماہرین اقتصادیات کو شبہ ہے کہ حالات اس سے بھی بدتر ہو سکتے ہیں۔ مصر کی بڑی غیر رسمی معیشت کے تناظر میں کہا جا رہا ہے کہ افراط زر کی غیر سرکاری شرح میں 101 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

مصر میں عوام کو جس تباہ کن معاشی بحران کا اس وقت سامنا ہے بالکل ایسے ہی مسائل سے 2019 ء میں لبنانی باشندے دو چار تھے۔ مصر اور لبنانکی معاشی صورتحال ایک دوسرے سے گہری مماثلت رکھتی ہے۔


انوکھی مماثلت

لبنان میں مایوس مقامی باشندے اپنی کمائی سے کی ہوئی بچت تک رسائی سے بھی محروم ہیں۔ شہر کے شہر تاریکی میں ڈوب گئے ہیں کیونکہ پاور اسٹیشنز کا ایندھن ختم ہو گیا ہے اور یہ صورتحال ملک کے متوسط طبقے کو قرضوں میں دھکیلے جا رہی ہے۔ مصر میں حالات ابھی اس حد تک نہیں پہنچے، تاہم جیسے جیسے یہاں کی معاشی و اقتصادی صورتحال کے تیزی سے بگڑنے کی خبریں آرہی ہیں ویسے ویسے یہ سوال جنم لے رہا ہے کہ کیا مصر جلد ہی ''نیا لبنان‘‘ بننے جا رہا ہے؟

کینیڈا کی سائمن فریزر یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر رابرٹ اسپرنگ برگ نے 2022ء میں واشنگٹن میں قائم ایک 'این جی او‘ پراجیکٹ آن مڈل ایسٹ ڈیموکریسی (POMED) کی ایک رپورٹ میں لکھا، ''لبنان کی اب انتہائی ناکام معیشت اور مصر کی جدوجہد کے درمیان قابل ذکر مماثلتیں پائی جاتی ہیں۔‘‘ انہوں نے لبنان میں عوام کے اندر اعتماد کے خاتمے کے نتائج کے تباہ کن ہونے کی مثال دیتے ہوئے متنبہ کیا کہ اگر مصر میں بھی حالات اتنے ہی خراب ہوئے تو معاشرے پر اس کے اثرات نہایت سنگین اور گہرے ہوں گے۔


معاشی بدانتظامی

مصر جو ہمیشہ سے ایک پسندیدہ سیاحتی مقام رہا ہے، کورونا کی وبا نے گزشتہ سالوں کے دوران شعبہ سیاحت کو تباہ کر دیا ہے۔ یہ شعبہ مصری معیشت میں ایک غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہ ملک سیاحت سے بہت زیادہ منافع کماتا رہا ہے۔ مصری اقتصادیات کو دوسرا بڑا دھچکا یوکرین کی جنگ سے لگا۔ اس کے نتیجے میں دنیا کے گندم درآمد کرنے والے اس سب سے بڑے ملک کے لیے گندم کی سپلائی میں بڑی رکاوٹ آ گئی ہے۔

سن 2014 ء سے مصری صدر عبدالفتاح السیسی کی قیادت میں مصری حکومت نے قومی ''میگا پراجیکٹس‘‘ کو فروغ دیا جس میں دنیا کی سب سے طویل، بغیر ڈرائیور والی مونو ریل کا پراجیکٹ بھی شامل ہے جس کی لاگت 23 بلین ڈالر ہے۔ اس کے علاوہ قاہرہ کے نزدیک ایک مکمل نئے شہر کا قیام بھی جو مصر کے نئے انتظامی دارالحکومت کی حیثیت رکھتا ہے۔ ان پراجیکٹس سے ملک میں ایک مصنوعی ترقی ہوئی ہے۔ بہت سے منصوبے مصری فوج کے پیسے کمانے والے وسیع کاروباری نیٹ ورک سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔


اس طرح کی پالیسیوں نے، ریاستی اور فوجی ملکیت والے اداروں کو معیشت پر غلبہ حاصل کرنے کے بے تحاشہ مواقع فراہم کیے تاہم اس سے مصر میں نجی شعبے کو شدید ٹھیس لگی ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوئی اور ملک کو اپنی بقا کے لیے غیر ملکی قرضوں پر انحصار بہت زیادہ بڑھانا پڑا ہے۔ مصر پر 155 بلین ڈالر یا (138 بلین یورو) سے زیادہ کا قرض ہے، اور اس کی قومی آمدنی کا تقریباً ایک تہائی حصہ اس غیر ملکی قرضے کی ادائیگی پر جاتا ہے۔

مصری اور لبنانی قوموں کا موازنہ ممکن نہیں

مصر اورلبنان کے درمیان کچھ مماثلتیں تو پائی جاتی ہیں مثال کے طور پر، مصر میں غربت کی جو سطح ہے قریب یہی سطح لبنان کی غربت کی بھی ہے، مصر میں غربت کی سطح 60 فیصد ہے اور مصری باشندے خط غربت پر یا اس کے قریب زندگی گزار رہے ہیں۔


مصر کی سیاسی اقتصادیات کے ماہر اور تحریر انسٹی ٹیوٹ فار مڈل ایسٹ پالیسی (TIMEP) سے منسلک ایک فیلو ٹموتھی کالداس کہتے ہیں، '' مصر میں سیاسی اشرافیہ کی خواہش ہے کہ وہ ریاست اور عوام کی قیمت پر خود کو دولت مند بنائے۔ یہ رجحان اور رویہ یقینی طور پر دونوں ممالک میں پایا جاتا۔‘‘ اُدھر کارنیگی انسٹی ٹیوٹ سے منسلک ایک ماہر یزید صیغ نے اس بارے میں اپنی دلیل پیش کرتے ہوئے کہا، ''مصری حکومت لبنان کی طرح بدعنوان نہیں ہے۔‘‘

ٹموتھی کالداس نے مزید کہا، ''اپنے تمام مسائل کی وجہ سے، مصر بنیادی طور پر لبنان سے کہیں زیادہ مستحکم صورتحال میں ہے اور یہ مکمل طور پر تباہی کے دہانے پر نہیں ہے جس طرح کے لبنان۔‘‘ شاید مصر اور لبنان کے درمیان سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ مصر کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ ''ناکام ہونے کے لیے مصر بہت بڑا ملک ہے۔‘‘ تقریباً 107 ملین باشندوں کے ساتھ، یہ خطے کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ اس کے علاوہ مصر مشرق وسطیٰکی سب سے طاقتور فوج بھی رکھتا ہے۔


مصر کی پوزیشن بہتر کیوں؟

کالداس نے مصر کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں مضبوط پوزیشن کے بارے میں کہا، ''جو چیز مصر کی خوش قسمتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس کے بیرونی حمایتی اور ساتھی ممالک مصر کے بُرے انتظامی ڈھانچے اور اندرونی کمزوریوں سے قطع نظر اس کی عملداری کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔‘‘

دسمبر کے وسط میں، بین الاقوامی مالیاتی فنڈ، یا IMF نے مصر کے لیے تین بلین ڈالر کے امدادی پیکج کی منظوری دی۔ یہ 2016 ء کے بعد سے IMF کا مصر کے لیے تیسرا پیکیج ہے۔ اس سے مصر کو بیرون ملک سے مزید سرمایہ کاری کو راغب کرنے کے ساتھ ساتھ مزید مالی امداد میں بھی مدد ملے گی۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔