ہبل اور جیمز ویب ٹیلی سکوپ مشن میں اہم کردار ادا کرنے والی نوجوان سائنسدان ڈاکٹر منزہ عالم

پاکستانی ماہر فلکیاتی طبیعیات ڈاکٹر منزہ عالم ہبل اور جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ مشنز کا حصہ رہ چکی ہیں۔ حجاب کے ساتھ بین الاقوامی سطح پر کیریئر میں اہم سنگ میل عبور کرنے والی ڈاکٹر منزہ ایک مثال ہیں۔

ہبل اور جیمز ویب ٹیلی سکوپ مشن میں اہم کردار ادا کرنے والی نوجوان سائنسدان ڈاکٹر منزہ عالم
ہبل اور جیمز ویب ٹیلی سکوپ مشن میں اہم کردار ادا کرنے والی نوجوان سائنسدان ڈاکٹر منزہ عالم
user

Dw

پاکستانی تعلیمی اداروں میں فلکیات خصوصا فلکیاتی طبیعیات کے حوالے سے تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے۔ مگر پاکستان کے باصلاحیت نوجوان دنیا بھر کے تعلیمی و تحقیق اداروں میں قابل قدر خدمات اور کارنامے سرانجام دے رہے ہیں۔ انہی میں سے ایک سائنسدان ڈاکٹر منزہ عالم بھی ہیں، جنہوں نے ہارورڈ یونیورسٹی سے فلکیاتی طبیعیات میں پی ایچ ڈی کیا۔ وہ ہبل اور جیمز ویب ٹیلی سکوپ جیسے مشنز کا حصہ رہ چکی ہیں۔ ڈاکٹر منزہ سفر کی بے انتہا شوقین ہیں اور نیشنل جیوگرافک کی ینگ ایکسپلولرز میں بھی شامل ہیں۔

ڈاکٹر منزہ عالم کون ہیں؟

ڈاکٹر منزہ کے والدین کا تعلق پاکستان اور بھارت سے ہے۔ ان کا بچپن نیویارک میں گزرا۔ ڈاکٹر منزہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ان کے کیریئر میں والدین کا کردار بہت اہم ہے۔ فلکیاتی طبیعیات سے ان کا پہلا تعارف امریکن میوزیم آف نیچرل ہسٹری نیو یارک میں ہوا، جہاں سے انہوں نے سوال کرنا اور تحقیق سے ان کے جواب ڈھونڈنا سیکھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ فلکیاتی طبیعیات میں انہیں سب سے زیادہ اس امر نے متاثر کیا کہ اس میں ان سوالات کے جوابات ڈھونڈے جاتے ہیں، جن کے بارے میں معلومات ابھی نہ ہونے کے برابر ہے۔


ڈاکٹر منزہ نے 2016ء میں کیونی ہنٹر کالج سے فلکیات اور طبیعیات میں گریجویشن کرنے کے بعد ہارورڈ یونیورسٹی سے انہی مضامین میں پی ایچ ڈی مکمل کی۔ ان کے تھیسز کا مرکز ہبل ٹیلی سکوپ مشن سے حاصل ہونے والے ڈیٹا کا تجزیہ تھا، جس میں نظام شمسی اور اس سے باہر دیگر سیاروں کے متعلق اہم معلومات جمع کر کے ان کی درجہ بندی کی گئی تھی۔

ڈاکٹر منزہ عالم کی تحقیق کا مرکز کیا ہے؟

ڈاکٹر منزہ 2021ء سے کارنیگی ارتھ اینڈ پلینٹ آبزرویٹری سے باحیثیت پوسٹ ڈاکٹورل فیلو وابستہ ہیں، جہاں ان کی تحقیق کا مرکز زمین سے مشابہہ ایسے سیارے ہیں، جہاں زندگی کی نشونما کے لیے لازمی اجزاء جیسے آکسیجن، نائیٹروجن، ہائیڈروجن، پانی وغیرہ دستیاب ہوں۔ سائنسی اصطلاح میں ایسے سیاروں کو "ایگزوپلنٹس" کہا جاتا ہے، جن کی تلاش جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ مشن کا بھی ایک اہم حصہ ہے۔


ڈاکٹر منزہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ کارنیگی ارتھ اینڈ پلینٹ آبزرویٹری میں وہ جیمز ویب اسپیس ٹیلی سکوپ اور دیگر بڑی خلائی دوربینوں سے حاصل شدہ ڈیٹا کا تجزیہ کرتی ہیں۔ وہ اپنی ٹیم کے ساتھ تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کر رہی ہیں کہ سیاروں کے ماحول سے حاصل ہونے والی معلومات سے ماضی میں ان کی تاریخ اور وہاں زندگی کے آثار سے متعلق معلومات کس طرح حاصل کی جا سکتی ہیں۔

جیمز ویب سپیس ٹیلی سکوپ سے حاصل ہونے والے ڈیٹا میں خاص کیا ہے؟

ڈاکٹر منزہ عالم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ہبل ٹیلی سکوپ سے سائنسدان آپٹیکل یا صرف رات میں نظر آنے والی روشنیوں کو دیکھ سکتے تھے، جبکہ جیمز ویب دوربین سے انفراریڈ روشنیوں کو با آسانی پرکھا جا سکتا ہے۔ جون 2022ء سے جیمز ویب دوربین سے ڈیٹا آنا شروع ہوا جو سائنسدانوں کے لیے حیران کن تھا کیونکہ یہ ان سے پہلے پیش کردہ تھوریٹیکل ماڈلز سے بالکل مختلف تھا۔


ڈاکٹر منزہ بتاتی ہیں کہ وہ بنیادی طور پر ڈیٹا اینالسٹ ہیں اور جیمز ویبدوربین سے حاصل ہونے والے نئے ڈیٹا کا تجزیہ کر رہی ہیں۔ اس دوران انہیں کچھ سیاروں سے ان کی فوٹو کیمسٹری کے بارے میں اہم معلومات ملیں۔ ان سیاروں کے ماحول میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور سلفر ڈائی آکسائیڈ کے مالیکیولز موجود ہیں۔ ڈاکٹر منزہ کے مطابق،''مستقبل میں ہم جیمز ویب دوربین سے اس سے بھی زیادہ حیران کن دریافتوں کی توقع کرتے ہیں۔‘‘

کسی سیارے پر زندگی کے آثار دریافت کرنے میں ابھی کتنا وقت درکار ہے؟

ڈاکٹر منزہ عالم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ فی الوقت ان کی تحقیق کا مرکز جو سیارے ہیں انہیں فلکیات کی اصطلاح میں "ہاٹ جیوپیٹر" کہا جاتا ہے۔ اگرچہ دیگر سیاروں پر زندگی کی تلاش میں یہ زیادہ معاون تو نہیں ہیں مگر ان کی مدد سے سیاروں کے ماحول کی طبعی اور کیمیائی خصوصیات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔


ڈاکٹر منزہ کے مطابق دیگر سیاروں پر زندگی کی تلاش میں زمین کی طرح چٹانوں والے سیارے زیادہ اہم ہیں۔ ہم ان سیاروں پر "بائیو سگنیچرز" جیسے آکسیجن، اوزون، میتھین، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی کی موجودگی کی توقع کرتے ہیں، جن سے کرۂ ارض پر زندگی کی ابتدا کا عمل شروع ہوا تھا۔ وہ مزید بتاتی ہیں کہ سائنسدان اگر کسی سیارے پر ان تمام بائیو سگنیچر کو ڈھونڈ لیں تب بھی وہ یقینی طور پر نہیں بتا سکتے کہ متعلقہ سیارہ زندگی کی نشونما کے لیے موزوں ہے یا نہیں۔

کیا حجاب کیریئر میں مسائل کا سبب بنا؟

ڈاکٹر منزہ عالم نے ڈوئچے ویلے کو مزید بتایا کہ فلکیاتی تحقیق میں خواتین کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہیں ہمیشہ یہ فخر رہا ہے کہ وہ فلکیات میں کام کرنی والی چنی گنی ایشین خواتین میں سے ایک ہیں۔ ڈاکٹر منزہ کے مطابق انہیں حجاب کے باعث اکثر منفی رویوں کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایک مرتبہ انہیں ایک امریکن امیریٹس پروفیسر نے اس وقت ہراساں کرنے کی کوشش کی، جب وہ فلکیات پر ایک سیمینار میں شرکت کرنے گئی تھیں۔


ڈاکٹر منزہ کہتی ہیں کہ خواتین کو کام کی جگہ پر ہراسگی یا صنفی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ خاموش رہنے کے بجائے ذمہ دار افراد کے خلاف آواز اٹھائیں۔ ڈاکٹر منزہ اس حوالے سے کافی متحرک رہتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ خواتین صنفی امتیاز سے متعلق چیلنجز کے بارے میں مکمل معلومات رکھیں۔ ان کی خواہش ہےکہ جنوبی ایشیاء سے زیادہ سے زیادہ خواتین اس شعبے میں آگے آئیں، جس کے لیے وہ عموما سپیسز اور لیکچرز کا انعقاد بھی کرتی ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔