کانگو میں اجتماعی قبروں سے درجنوں لاشیں برآمد
اقوام متحدہ نے بتایا کہ کانگو میں اجتماعی قبروں سے کم از کم 49 لاشیں ملی ہیں۔ وہ اس بات کی تحقیقات کر رہا ہے کہ آیا ان اجتماعی قبروں کا تعلق شہریوں پر ہونے والے حالیہ حملوں سے تو نہیں۔
اقوام متحدہ نے بتایا کہ یہ اجتماعی قبریں شورش زدہ صوبے اتوری سے ملی ہیں، جہاں دسمبر کے بعد سے ہی تشدد بھڑک رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے نائب ترجمان فرحان حق نے نیویارک میں صحافیوں کو بتایا کہ عوامی جمہوریہ کانگو میں اجتماعی قبروں سے کم از کم 49 لاشیں ملی ہیں۔ یہ لاشیں یوگنڈا کی سرحد کے قریب واقع اتوری صوبے کے دو دیہاتوں میں قبروں میں پڑی ہوئی ہیں۔
خیال رہے کہ اواخر ہفتہ کو شمال مشرقی کانگو کے اس صوبے میں ایک مقامی ملیشیا گروپ نے مبینہ طور پر حملہ کیا تھا۔ فرحان حق نے کہا کہ وہ اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ آیا اجتماعی قبروں کا تعلق مقامی عسکریت پسندوں کے ساتھ ہونے والی لڑائی سے تو نہیں ہے۔
فرحان حق نے بتایا کہ چھ بچوں سمیت 42 افراد کی لاشیں نیامبا گاوں میں ایک اجتماعی قبر میں ملی ہیں جبکہ سات دیگر افراد کی لاشیں ایم بوگی گاوں میں ایک اجتماعی قبر میں ملی۔
انہوں نے بتایا کہ کوڈیکو (CODECO) ملیشیا کی طرف سے اواخر ہفتہ شہریوں پر حملوں کی اطلاعات موصول ہونے کے بعد امن قائم کرنے والے دستوں نے علاقوں میں گشت شروع کیا۔ اسی دوران یہ خوفناک انکشافات ہوئے۔
خطے میں بدامنی کے پس پشت کون ہے؟
کوڈیکو یعنی 'کانگو کی ترقی کے لیے امداد باہمی' نامی تنظیم ان متعدد ملیشیا گروپوں میں سے ایک ہے جو تنازعات سے متاثر کانگو میں سرگرم ہیں۔ اس کے جنگجو بنیادی طور پر لینڈو کاشت کار برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔
لینڈو برادری اور ہیما چرواہوں کے درمیان ایک طویل عرصے سے کئی طرح کے تنازعات ہیں۔ مقامی حکام کا کہنا ہے کہ کوڈیکو کے حملہ آوروں نے گاوں پر حالیہ حملے کے دوران متعدد خواتین کو اغوا بھی کرلیا۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ رواں مہینے گروپوں کے درمیان تصادم کے کئی واقعات پیش آچکے ہیں جب کہ مبینہ طور پر کوڈیکو ملیشیا اور دیگر مسلح گروپوں کی جانب سے ہونے والے حملوں میں دسمبر سے اب تک کم از کم 195 افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔
کوڈیکو سے تعلق رکھنے والے دھڑوں نے گزشتہ جون میں اتوری میں شہریوں کے خلاف تشدد کو روک دینے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم انہوں نے دھیرے دھیرے دوبارہ حملے شروع کر دیے۔ اس لڑائی کے نتیجے میں اتوری صوبے میں اب تک 15لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہوچکے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔