کتوں کے ذریعے غیر قانونی شکار، کتا عدالت کے کٹہرے میں

پاکستانی شہر کہوٹہ کی ایک ضلعی عدالت میں اس وقت سب حیرت سے دنگ رہ گئے جب ایک کتے کو عدالت کے کٹہرے میں لایا گیا۔ غیرقانونی طور پر شکار میں ملوث لوگ اسے جنگل ہی میں چھوڑ گئے تھے۔

کتوں کے ذریعے غیر قانونی شکار، کتا عدالت کے کٹہرے میں
کتوں کے ذریعے غیر قانونی شکار، کتا عدالت کے کٹہرے میں
user

Dw

پاکستانی شہر کہوٹہ کی ایک ضلعی عدالت میں اس وقت سب حیرت سے دنگ رہ گئے جب ایک کتے کو عدالت کے کٹہرے میں لایا گیا۔ اس کتے پر الزام تھا کہ اسے جنگل میں شکار کی غرض سے لایا گیا تھا۔ شکاری جنگل میں غیر قانونی شکار کی غرض سے پہنچے لیکن جب وہاں سیکورٹی گارڈز کی جانب سے چھاپا مارا گیا تو وہ خود تو فرار ہو گئے لیکن اپنا شکاری کتا چھوڑ گئے۔

محکمہء جنگلی حیات کے فارسٹ گارڈ عدنان بشیر نےڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کتا 26 نومبر 2021کو قبضے میں لیا گیا۔ شکاری تسلیم کامران موقع سے فرار ہو گیا تھا جب کہ اس کے پاس اسلحے کا لائسنس بھی نہیں تھا۔ گارڈ نے بتایا کہ کتے کا اصل مالک سردار شبیر نامی شخص ہے جس سے شکاری تسلیم نے کتا لیا تھا۔


چالان شکاری کتے پر درج کیا گیا جب کہ شکاری تسلیم کامران کے خلاف مقدمہ درج کروایا گیا۔ معزز عدالت نے اس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے کتے کی نیلامی کا حکم دیا جس کے بعد 22 ہزار روپے میں جاوید نامی شہری نے یہ کتا خرید لیا۔

جنگلی حیات پر کام کرنے والےسینئر صحافی اویس کیانی بتاتے ہیں کہ پنجاب اور بالخصوص کہوٹہ رینج میں ککڑ، جنگلی مرغ اور خرگوش کا شکار کیا جاتا ہے۔ پابندیوں کے باوجود بھی لوگ بنا سیزن کے شکار کرتے ہیں اور سفاکی یہ کہ کتوں کے ذریعے شکار عام ہوتا جا رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ رپورٹنگ کے دوران یہ بات مشاہدے میں آئی کہ وائلڈ لائف محکمے کو شکاریوں کے ساتھ مقابلے میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔جنگلی حیات کی سکیورٹی پر مامور گارڈز کے پاس ہتھیار نہیں ہوتے ایک چالان بک اور پنسل ہوتی ہے۔ جب ضرورت پڑتی ہے تو یہ پولیس کو بلاوا لیتے ہیں۔


کتوں کے ذریعے جنگلی حیا ت کے شکار کےحوالے سے پاکستان میں ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف ) کے مینجرکنزرویشن محمد وسیم نے ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو میں بتایا کہ کتوں کے ذریعےکسی دوسرے جانور یا پرندوں کا شکار کرنا انتہائی ظلم ہے۔ اسی وجہ سے پنجاب حکومت نے بھی کتوں کے ذریعے شکار پرپابندی عائد کررکھی ہےاور اسے قانونً جرم قرار دیا گیا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ شکاری کتوں کو دو طرح کے شکار کے لیے استعمال کرتے ہیں، ایک پرندو ں کو پوائنٹ کرنے کے لیے اور دوسرا انہیں جنگلی خنزیر،ککڑ اور ہرن کے شکار کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ عمل غلط اور غیر قانونی ہیں۔ ککڑ کے شکار کی ویسے بھی اجازت نہیں ہے۔ اسی طرح بنا سیزن کے بھی شکار غیر قانونی سرگرمی ہے۔ غیر قانونی شکاری پر ایف آئی آر درج کی جاتی ہے اور بھاری جرمانے کا حامل چالان بھی کاٹا جاتا ہے۔


پنجاب میں کس کس جانور کا شکار کیا جاتا ہے؟

محمد وسیم نے بتایا کہ پنجاب میں شکار کے مختلف سیزن ہوتے ہیں اور حکومت اس کے لائسنس جاری کرتی ہے۔کچھ پرندوں کے شکار جیسے تیتر ، بٹیر اور فاختہ کا شکار کیا جاتا ہے لیکن یہ خیال کیا جاتا ہے کہ پرندوں اور جانوروں کی افزائش کا موسم نہ ہو۔ ایسے میں ان کی آبادی کو مستحکم رکھنے کے لیے انتظامی آلہ کے طور پر شکار کیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا، ''پوٹھوہار اور پنجاب کے دوسر ے علاقے جیسا کہ سالٹ رینج میں مقامی لوگ اور اناڑی شکاری شکار کے لیے بعض اوقات کتوں کو استعمال کرتے ہیں جو کہ انتہائی غیرمناسب ہے۔‘‘


کتوں کے ذریعے شکار پر کب سے پابندی عائد ہے؟

آج سے 6 ماہ قبل کتوں کے ذریعے کیے جانے والے شکار کو غلط جانتے ہوئے پنجاب حکومت کی جانب سےایک نوٹیفیکشن جاری ہوا تھا تاکہ اس عمل کو روکا جا سکے۔

مینجر تحفظ جنگلی حیات ڈبلیو ڈبلیو ایف محمد وسیم کے مطابق وائلڈ لائف کا پاکستان کے ہر صوبے میں ایکٹ موجود ہے جس کی روشنی میں وہاں کا مقامی محکمہ جہاں وائلڈ لائف کا ڈیپارٹمنٹ بھی ہوتا ہے وہ ایکٹ کے مطابق مختلف شیڈولز بناتا ہے جس کی لسٹس ہوتی ہیں۔ فوقیت کی بنیادپر جانوروں کو شیڈول 1 یا 2 میں لایا جاتا ہے جب کہ کم ترجیح والے جانوروں کو 3 یا 4 شیڈول میں ڈالا جاتا ہے۔ جنگلی خنزیر فورتھ شیڈول میں آتا ہے۔


پنجاب میں ٹرافی ہنٹنگ بھی کی جاتی ہے پر اس کا بھی خاص سیزن ہوتا ہے۔ اس کے لیے پرائیوٹ گیمز ریزوز ہوتے ہیں جہاں ٹرافی ہنٹنگ کی جاتی ہے۔

غیر قانونی شکار کو روکنے کے لیے وسائل کی کمی کا کس حدتک سامنا ہے؟

محمد وسیم نے آگاہ کیا کہ پاکستان میں اس ضمن میں وسائل میں سب سے بڑا مسئلہ مین پاور کی کمی ہے اس کے بعدگاڑیوں کی کمی۔ اپنی حفاظت کے لیے اہلکاروں کے پاس مناسب سامان بھی موجود نہیں۔ وائلڈ لائف کو اس وقت غیر قانونی ٹریڈ اور شکار کی روک تھام کے لیے استعداد بڑھانے، مین پاور اور ان کے لیے سازوسامان کی ضرورت ہے۔


وائلڈ لائف کے قوانین پر نظر ثانی کی ضرورت ہے؟

محمد وسیم کہتے ہیں، ''ہیومن وائلڈ لائف کانفلکٹ مینجمینٹ یہ ایک ایسا کمزور علاقہ ہے جس میں حکومت کی جانب سے معاوضے کا اعلان ہونا چاہیے۔ جب بھی کسی جنگلی جانور کی وجہ سے کسی کا کوئی نقصان ہوتا ہے تو اس کو معاوضہ دینے کی پالیسی ہماری پاس نہیں ہوتی۔ اس لیے اس پالیسی کو متعارف کروانے کی بہت ضرورت ہے۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔