کیا بنگلہ دیش میں ہندو خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں؟

گزشتہ برس درگا پوجا کے تہوار کے دوران ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کی یادیں بنگلہ دیش کے بہت سے ہندوؤں کے ذہنوں میں اب بھی تازہ ہیں۔ اس تہوار کو زیادہ پرامن بنانے کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں۔

کیا بنگلہ دیش میں ہندو خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں؟
کیا بنگلہ دیش میں ہندو خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں؟
user

Dw

بنگلہ دیش کا سب سے بڑا ہندو تہوار درگا پوجا، انیل کرشن پال کے لیے سال کا سب سے مصروف ترین وقت ہوتا ہے۔ 55 سالہ پال اور ان کی ٹیم تہوار کے دوران مندروں میں پوجا کے لیے خصوصی منڈپ اور مورتیاں تیار کرتی ہے۔ اس سال انہیں 20 آرڈر ملے ہیں۔

پال نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا، ''پہلے، ہم لکڑی اور بانس سے ایک فریم بناتے ہیں۔ پھر ہم گھاس سے مورتی کا ڈھانچہ بناتے ہیں اور اسے فریم پر لگاتے ہیں۔ اس کے بعد ہم مٹی کا کام شروع کرتے ہیں۔''


انہوں نے تیار شدہ مورتیوں کی ایک قطار دکھاتے ہوئے بتایا، ''بنیادی ڈھانچہ اور مٹی کے کام کو مکمل کرنے میں آٹھ دن لگتے ہیں۔ پھر ہمیں اسے رنگنے کے لیے مزید دو دن درکار ہوتے ہیں۔'' پال کی ورکشاپ جنوب مشرقی بنگلہ دیش کے شہر کمیلا میں واقع ہے۔ جہاں گزشتہ سال درگا پوجا کی تقریبات کے دوران مشتعل مسلمانوں کے ایک ہجوم نے ہندو مندروں پر حملہ کردیا تھا۔

پچھلے سال کیا ہوا تھا؟

سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر گردش کرنے والی فوٹیج میں ہندو دیوتا ہنومان کی گود میں قرآن پاک کا ایک نسخہ رکھا ہوا دکھایا گیا تھا۔ اس ویڈیو کو بنگلہ دیش کی مسلم اکثریت کی توہین کے طور پر دیکھا گیا اور اس کی وجہ سے ایک درجن سے زائد اضلاع میں سینکڑوں افراد مشتعل ہوگئے۔ احتجاج کرنے والے مسلمانوں نے ہندوؤں کے گھروں پر حملے کر دیے اور سات افراد ہلاک ہوگئے۔


پال کہتے ہیں، "مجھے بہت برا لگا۔ میں اور کیا کہہ سکتا ہوں؟ جو مورتی میں نے خود بنایا تھا وہ تباہ ہو گیا۔ ہم اس کی پوجا بھی نہیں کر سکے، کیا یہ دکھ کی بات نہیں؟ ہم بت سے عقیدت کا اظہار کرتے ہیں، ان پر نذریں چڑھاتے ہیں۔ لیکن میرا دل ٹوٹ گیا۔"

حالانکہ یہ بعد میں پتہ چلا کہ یہ مذہبی کشیدگی کو ہوا دینے کے لیے ایک دانستہ چال تھی۔ سی سی ٹی وی فوٹیج میں ایک شخص کو مندر میں مورتی پر قرآن رکھتے ہوئے پایا گیا۔ بعد میں اسے گرفتار کر لیا گیا۔


مندر پر حملہ

ہندو اکثریتی محلے میں رہنے والی 45 سالہ رتنا داس نے گزشتہ سال اپنی آنکھوں کے سامنے فرقہ وارانہ تشدد کے واقعات رونما ہوتے دیکھے تھے۔ رتنا داس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہمارا علاقہ حملے کی زد میں آنے والا دوسرا علاقہ تھا۔ ہمارے محلے کے نوجوان مردوں اور عورتوں نے مزاحمت کی اور ہمارے مندر کی حفاظت کی۔ اب ہم نے یہاں ایک گیٹ لگا دیا ہے تاکہ کسی ناخوشگوار واقعے کو رونما ہونے سے روکا جاسکے۔"

انہوں نے مزید بتایا، ''تاہم، انہوں نے دوسرے علاقوں میں توڑ پھوڑ کی۔ ایک دوسرے مندر کا مین گیٹ تباہ کر دیا گیا۔ سجاوٹی اشیاء، ساونڈ باکس، قمقموں وغیرہ کو توڑ دیے۔ کئی افراد زخمی بھی ہوئے۔"


جشن 'خوف کے ساتھ'

بنگلہ دیش میں ہندوؤں اور دیگر مذہبی اقلیتوں پر حملے کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ بنگلہ دیشی انسانی حقوق کی تنظیم عین الثالث کیندر (اے ایس کے) کے مطابق گزشتہ سال درگا پوجا پر ہونے والے حملوں سے پہلے بھی 100 سے زائد ہندوؤں کے گھروں پر حملے ہو چکے تھے۔

سن 2013 سے سن2021 کے درمیان ہندوؤں پر 3,500 سے زیادہ حملے ہوئے جن میں مندروں پر 1,678 حملے اور مورتیوں کی توڑ پھوڑ شامل ہے۔ رتنا داس نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ''لیکن ہم نے پچھلے سال کی طرح ایسے حملے نہیں دیکھے تھے۔ یہاں تک کہ ہمارے باپ دادا اور آباؤ اجداد نے بھی کمیلا میں ایسے واقعات نہیں دیکھے تھے۔ اس لیے ہم ذرا ڈرے ہوئے ہیں۔''


رتنا داس کی پڑوسی، نیپا پال کا کہنا تھا،''میری آٹھ سالہ بیٹی مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ کیا کوئی پوجا ہوگی؟ ہم جانتے ہیں کہ ہم تہوار منائیں گے، لیکن ڈر ہے کہ ایسی صورت حال دوبارہ نہ پیدا ہوجائے۔''

پولیس تحفظ

اس سال درگا پوجا پورے بنگلہ دیش میں 32,000 سے زیادہ مندروں اور عارضی مندروں میں منائی جائے گی۔ حکام کا کہنا ہے کہ انہیں توقع نہیں کہ پچھلے سال جیسے حالات پیدا ہوں گے۔ بنگلہ دیش کے وزیر داخلہ اسد الزماں خان کمال نے منتظمین اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کے ساتھ میٹینگیں کی ہیں اور اس بات پر زور دیا ہے کہ اس سال سکیورٹی میں اضافہ کیا جائے گا۔


انہوں نے نامہ نگاروں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''میں نے منتظمین سے تمام پوجا منڈپوں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کو کہا ہے۔ ہم کافی تعداد میں پولیس یا دیگر قانون نافذ کرنے والے ارکان کو تعینات کریں گے۔''

بنگلہ دیش پولیس کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل محمد حیدر علی خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ''جب سے مورتیوں کی تیاری شروع ہوئی ہے ہم نے اسی وقت سے حفاظتی اقدامات کرنا شروع کر دیے ہیں۔'' انہوں نے مزید کہا ''ہمارے انٹیلیجنس محکمے معلومات اکٹھا کر رہے ہیں تاکہ ہم خطرے کی سطح کا اندازہ لگا سکیں اور اس کے مطابق اقدامات کر سکیں۔'' تاہم پوجا کے منتظمین موجودہ صورتحال سے پوری طرح مطمئن نہیں ہیں۔


ایک پوجا کمیٹی کے منتظم پودّار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم ایک ایسا سماجی نظام چاہتے ہیں جہاں کسی مذہبی تہوار کو پولیس سکیورٹی کی ضرورت نہیں ہو۔ یہ ہماری قومی آزادی کا بنیادی مطلب تھا۔ یہاں آپ پولیس کی حفاظت میں پوجا منائیں گے، اس کا کوئی مطلب نہیں ہے۔"

مسلم علماء کی جانب سے ہم آہنگی کی اپیل

دریں اثناء ڈھاکہ کی مرکزی مسجد بیت المکرم میں نماز جمعہ سے قبل مسلم علماء نے سماجی ہم آہنگی کی اپیل کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام ''دوسروں'' کو تکلیف دینے کی اجازت نہیں دیتا۔


ایک 20 سالہ اسلامی طالب علم محمد شاہد الاسلام کا کہنا تھا، ''اسلام کہتا ہے کہ اگر دوسرے مذاہب کے لوگ بھی آپ کے ساتھ رہتے ہیں، تو انہیں مسلمانوں کی عمل سے کوئی نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔'' ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مختلف عقیدے کے حامل شخص پر کوئی مخصوص مذہبی اقدار مسلط نہیں کی جا سکتیں۔

ان کے دوست علی حسن کا کہنا تھا،"وہ سمجھتے ہیں کہ نفرت اور لڑائی کسی غلط فہمی کا حل نہیں ہے۔ ہمارے پیغمبر نے ہمیں کسی سے نفرت نہیں کرنے کی تعلیم دی ہے۔" دریں اثنا، بیت المکرم مسجد کے امام نے اقلیتوں کے خلاف جرائم کی روک تھام کے لیے مناسب کارروائی کا مطالبہ کیا۔ حافظ مولانا مفتی روح الامین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومت کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ ایسے واقعات دوبارہ رونما نہ ہوں۔انہیں کارروائی کرنی چاہیے۔ انہیں ایسے مجرموں پر نظر رکھنی چاہیے۔''


حکومت کتنی فعال ہے؟

ایک عام تاثر ہے کہ بنگلہ دیش کی حکمران عوامی لیگ کو زیادہ تر اقلیتی ووٹ ملے ہیں کیونکہ وہ مذہبی انتہائی دائیں بازو کی طرف جھکاؤ نہیں رکھتی، حالانکہ ہندو رہنماؤں کو شکایت ہے کہ حکومت ان کا تحفظ کرنے میں ناکام رہی ہے۔

پودار نے ڈی ڈبلیوسے بات کرتے ہوئے کہا، ''یہ بہت مایوس کن ہے کہ مجرموں کو سزا نہیں دی گئی۔ اس لیے یکے بعد دیگر حملے کرنے کے لیے انہیں حوصلہ ملا۔"


گزشتہ سال درگا پوجا کے حملوں کے بعد پولیس نے کم از کم 52 مقدمات درج کیے تھے۔ انہوں نے اہم ملزم اور سینکڑوں دیگر افراد کو بھی گرفتار کیا - لیکن مقدمات ابھی تک زیر التوا ہیں۔ ڈی آئی جی خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم نے زیادہ تر مقدمات کی تحقیقاتی رپورٹیں عدالت میں جمع کرادی ہیں۔ کچھ تحقیقات ابھی جاری ہیں۔''

بنگلہ دیش میں صحافی اور فرقہ وارانہ تنازعات پر محقق شہریار کبیر کا خیال ہے کہ حکومت کو فعال ہونا ہوگا۔ کبیر نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ''ہم نے مذہبی اقلیتوں کے لیے ملک کو محفوظ بنانے کے لیے حکومت کو مختصر مدت اور طویل مدتی اقدامات کرنے کا مشورہ دیا ہے۔''


''مختصر مدت میں، انہیں مجرموں کو سزا دے کر متاثرین کو انصاف کی فراہمی کو یقینی بنانا ہوگا۔ طویل مدت میں، ہم نے ان سے قومی اقلیتی کمیشن بنانے یا اقلیتوں کے تحفظ کا قانون بنانے کی اپیل کی ہے۔''

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔