ترک ڈاکٹر اپنا ملک کیوں چھوڑ رہے ہیں؟

ناکافی اجرت، بڑھتا تشدد، بد سلوکی اور مہنگائی کی وجہ سے ترک ڈاکٹروں نے مغربی ممالک کا رخ کرنا شروع کر دیا۔

ترک ڈاکٹر اپنا ملک کیوں چھوڑ رہے ہیں؟
ترک ڈاکٹر اپنا ملک کیوں چھوڑ رہے ہیں؟
user

Dw

ترک ڈاکٹر میسوت نے مستقبل کے سنہرے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے اور ملک و قوم کی خدمت کرنے کی غرض سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ ان کی خواہش تھی کہ وہ ترکی میں رہ کر ہی اپنی خدمات سر انجام دیں گے تاہم مریضوں کی جانب سے تشدد کے خطرے، ترک معیشت کی تباہ حالی اور بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر وہ بیرون ملک منتقل ہونے کے خواہش مند ہیں۔

میسوت نے مصمم ارادہ کر لیا ہے کہ وہ اگلے سال تک ترکی چھوڑ کر اپنے مختصر خاندان کے ساتھ جرمنی شفٹ ہو جائیں گے۔ وہ بھی ترکی کے ان انتہائی ہنرمند پیشہ ور افراد میں سے ایک ہی، جو ملک چھوڑ کر جانے کے خواہاں ہیں۔ ماضی قریب میں ترکی میں ایسے افراد کی تعداد میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ اس کی بنیادی وجہ ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور اپنے خاندانوں کی مناسب کفالت کے لیے مسلسل جدوجہد ہے۔


میسوت کا کہنا ہے،''ہم مستقبل کے لیے تمام امیدیں کھو چکے ہیں۔ میں جب بھی اپنے کسی ساتھی سے بات کرتا ہوں تو وہ مایوس نظر آتے ہیں۔ ہر کوئی متبادل راستے ڈھونڈنے کی کوششوں میں ہے۔‘‘ ترکی میں خاص طور پر شعبہ طب سے تعلق رکھنے والے افراد کا کہنا ہے کہ ان کی مشکلات میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے۔ انہیں ڈیوٹی کا دورانیہ بڑھنے، مریضوں یا ان کے رشتہ داروں کی جانب سے جسمانی اور زبانی بدسلوکی میں اضافے اور سینئیرز کی طرف سے ہراساں کیے جانے جیسے مسائل کا سامنا ہے۔

ابھی حال ہی میں ایک شخص نے ایک ماہر امراض قلب کو 15 گولیاں مار کر اس لیے ہلاک کیا کیونکہ اسے لگتا تھا کہ وہ ڈاکٹر اس کی ماں کی موت کا ذمے دار ہے۔ ترکی کی اقتصادی مشکلات ترک عوام کو ہجرت کی طرف راغب کر رہی ہیں۔ ملک میں افراط زر کی شرح 83 فیصد سے تجاوز کر گئی ہے اور رواں سال ڈالر کے مقابلے میں ترک لیرا کی قدر میں تقریباً 30 فیصد تک کی کمی دیکھنے میں آئی ہے۔


ماہرین کا ماننا ہے کہ اگلے سال تک ہونے والے انتخابات میں، جن میں صدر رجب طیب ایردوان دو دہائیوں تک برسر اقتدار رہنے کے بعد تیسری بار بھی حکومت میں آنے کے خواہشمند نظر آتے ہیں، تبدیلی کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔

ترکی کے کسی بھی سرکاری ہسپتال میں ایک ماہر ڈاکٹر ماہانہ اوسطاً ایک ہزار ڈالر سے زائد کما سکتا ہے، جو ترکی میں اوسط کمائی جانے والی رقم سے تین گنا زیادہ ہے لیکن پھر بھی یہ کمائی یورپ میں ڈاکٹرز کو ملنے والی تنخواہ سے بہت کم ہے۔ میسوت کا کہنا ہے کہ وہ ماہانہ دو ہزار ڈالر کماتے ہیں لیکن یہ ترکی میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کے پیش نظر ناکافی ہے۔


انہوں نے کہا، ''ہم سخت محنت کرتے ہیں لیکن ہمیں، جو اجرت ملتی ہے، وہ انتہائی کم ہے۔ ہمیں مریضوں اور ان کہ ورثاء کی جانب سے تشدد، مار پیٹ اور حملوں کا سامنا رہتا ہے اور ہم اپنا حوصلہ کھو بیٹھے ہیں۔‘‘

تاہم ترک حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ڈاکٹرز کو درپیش ان مسائل کو حل کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اسی لیے رواں سال جولائی کے مہینے میں سرکاری شعبے میں ڈاکٹروں کی اجرت میں 42 فیصد اضافہ کیا گیا۔ ترک حکام نے اسی سال ماہرین طب کے معاشی حالات کو مزید بہتر بنانے اور تشدد سے بچانے کے لیے اصلاحات بھی متعارف کرائی تھیں۔ ان ضوابط کا مقصد ملک چھوڑنے والے ڈاکٹروں کی تعداد کو کم کرنا اور طبی پیشہ ور افراد کی بہتر تنخواہ کے لیے پبلک سے پرائیویٹ ہسپتالوں میں جانے کے بڑھتے ہوئے رجحان کو روکنا تھا۔


صدر ایردوان نے گزشتہ ماہ ترک مہاجرین کی بڑھتی تعداد پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ''ہم ان لوگوں پر ترس کھاتے ہیں، جو سطحی خواہشات کے لیے دوسرے ممالک کے دروازے کھٹکھٹاتے ہیں۔ ان کا مقصد صرف پر آسائش زندگی اور دیگر لگژریز ہوتی ہیں۔‘‘

میسوت نے کہا کہ حکومت کی طرف سے ڈاکٹروں کو غلط قرار دینا ایک آخری حربہ ہے تاکہ طب سے منسلک افراد مزید پستے رہیں تاہم ڈاکٹرز نے پہلے ہی اس ملک میں بہت قربانیاں دی ہیں۔ ان کے مطابق، ''میں کافی عرصے سے نقل مکانی کے بارے میں سوچ رہا تھا لیکن ترک صدر کے اس بیان، جس میں انہوں نے کہا کہ جانے والوں کو جانے دیا جائے، نے میرے ارادے کو مزید پختہ کر دیا ہے۔‘‘ وہ اپنی اہلیہ جو کہ ایک نرس ہیں اور اپنے بچوں سمیت جرمن زبان بھی سیکھ رہے ہیں تاکہ انہیں اور ان کے خاندان کو جرمنی میں کسی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔


استنبول میڈیکل چیمبر کی چیئر پروفیسر نرگس ایردوان کے مطابق ڈاکٹرز کی جانب سے رواں سال ہجرت کی کوششوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ان کا کہنا ہے انہیں ایسے سرٹیفکیٹس اور دیگر دستاویزات، جن کی مدد سے ڈاکٹرز کو بیرون ملک کام کرنے کی اجازت ملتی ہے، کی درخواستیں بڑی تعداد میں موصول ہو رہی ہیں۔ ان کے مطابق 2012 میں صرف 59 ترک ڈاکٹروں نے ایسے سرٹیفکیٹ حاصل کرنے کے لیے درخواست دی تھی۔ لیکن اس سال کے پہلے نو مہینوں میں، 1938 ڈاکٹرز 1014 ماہرین اور 924 صحافیوں نے یہ درخواستیں دی ہیں۔

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''ہم فرسٹ ایئر کے طلباء سے ان کے مستقبل کے منصوبوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو ان میں سے اکثر کا جواب یہ ہوتا ہے کہ وہ جرمن زبان سیکھیں گے۔‘‘ محمد سیحان دیولوک انقرہ کے ایک میڈیکل کالج میں فرسٹ ایئر کے طالب علم ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے انگلش سیکھنے کی ابتدا کی ہے تاکہ انہیں بیرون ملک با آسانی ملازمت مل جائے۔


انہوں نے کہا، ''ترکی میں ڈاکٹروں کے خلاف بڑھتا تشدد یہاں سے ڈاکٹروں کی ہجرت کی سب سے بڑی اور اہم وجہ ہے۔ ترکی میں ڈاکٹروں پر کام کا بوجھ بھی باقی ملکوں کی نسبت زیادہ ہے۔ ہر ترک ڈاکٹر تین سے پانچ منٹ کے دوران ایک مریض دیکھتا ہے۔‘‘ نرگس ایردوان کا کہنا ہے کہ وہ ایک دن میں 80 سے 100 مریضوں کا علاج کرتی ہیں۔ دیولوک بھی اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد جلد سے جلد بیرون ملک منتقل ہونا چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''اگر مجھے گریجوایشن سے قبل موقع ملے تو میں یورپ جانا چاہوں گا۔‘‘

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔