ڈپریشن کوئی شرم کی بات نہیں، ماہرین کا علاج پر زور
بدترین صورتوں میں ڈپریشن کا عارضہ خود کشی تک کا سبب بن سکتا ہے۔ اطلاعات کے مطابق صرف جرمنی میں ایک سال کے دوران ساٹھ لاکھ سے زائد بالغ افراد ذہنی تناؤ کے عارضے کا شکار ہوتے ہیں۔
یکم اکتوبر بروز اتوار یعنی آج یورپ بھر میں ڈپریشن ڈے کا انعقاد کیا جارہا ہے۔ اس مناسبت سے ماہرین نے ڈپریشن سے نمٹنے کے لیے چند بنیادی اقدامات پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے شکار افراد کو فوری طور پر مدد حاصل کرنی چاہیے۔
ڈپریشن یا پژمردگی کسی بھی انسان کو متاثر کر سکتی ہے۔ اس بات پر تمام ماہرین متفق ہیں۔ ڈپریشن کا عارضہ ایک ایسی بیماری سمجھا جاتا ہے، جو بہت عام ہے تاہم اس کی سنگینی کا اکثر بہت کم اندازہ لگایا جاتا ہے جبکہ یہ بدترین صورت میں خود کشی تک کا سبب بن سکتی ہے۔
سائیکو تھراپسٹ یا نفسیاتی علاج کرنے والوں کے مطابق ڈپریشن کی بیماری سے شفا یاب ہونے کے لیے اس بیماری کا جلد پتا لگنا بہت ضروری ہے۔ جرمنی میں یورپی ڈپریشن ایسوسی ایشن کے نمائندے اور محقق ڈیٹلیف ڈیٹرش نے حال ہی میں ڈپریشن کے عارضے کی سنگینی پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک بیان میں کہا،''زیادہ تر صورتوں میں ڈپریشن کی بیماری کا آسانی سے علاج کیا جا سکتا ہے، بشرطیکہ اسے پہچان لیا جائے اور اس کا جلد علاج کیا جائے۔ اس کے لیے اس بیماری کی طرف ایک کھلا زہن رکھنا ضروری ہے.
یورپین ڈپریشن ڈے
ڈپریشن کا یورپی دن یا ''یورپین ڈپریشن ڈے‘‘ ہر سال یکم اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔ اس سال اس دن کا موٹو ''غیر یقینی وقت میں ڈپریشن کے علاج کی نئی بصیرت‘‘ ہے۔ اطلاعات کے مطابق جرمنی میں ایک سال کے دوران ساٹھ لاکھ سے زائد بالغ افراد ذہنی تناؤ کے عارضے کا شکار ہوتے ہیں۔
ایک معروف کیبرے آرٹسٹ میتھیاس بروڈوی کہتے ہیں کہ ان کا ڈپریشن کا علاج چار سال تک کیا گیا۔ ان کے بقول،''میں چاہوں گا کہ ہمارا معاشرہ ڈپریشن کی بیماری کو بہتر طور پر سمجھے۔ اس کے بارے میں بار بار بات کرنا اور حقیقت پر مبنی اور اچھی طرح سے معلومات فراہم کرنا بہت اہم ہے۔‘‘
خود سے جنگ نہیں
ان کا مزید کہنا تھا،'' آپ کو کسی بھی حالت میں اپنے ساتھ ایسا نہیں کرنا چاہیے۔ ڈپریشن ایک سنگین بیماری ہے نہ کہ کردار کی کمزوری‘‘ کیبرے آرٹسٹ میتھیاس بروڈوی کا کہنا ہے،''آپ کو خود سے لڑنے اور جیتنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ خود کو شکست نہیں دی جا سکتی۔ اس طرح کی بیماری کا علاج کرنے کی ضرورت ہے۔ اس پر کسی کو شرمندہ نہیں ہونا چاہیے۔ رشتہ داروں کو بھی اس طرح کی مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ اس سلسلے میں ٹیلی فون پر کاؤنسلنگ مدد فراہم کر سکتی ہے۔‘‘
انہوں نے ذہنی دباؤ کے شکار مریضوں کو معالجین سے مشاورت کے لیے طویل انتظار کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے اس بیماری کے علاج کے لیے مزید سہولیات کے قیام کا بھی مطالبہ کیا - ان کا کہنا تھا،''سیاست دانوں کو یہاں موثر اقدامات کرنا ہوں گے۔‘‘
ڈپریشن یا پژمردگی ایک ایسا عارضہ ہے جس کی علامات میں طویل عرصے تک بد مزاجی، زندگی کے مختلف پہلوؤں میں عدم دلچسپی یا خوشی کا کم احساس ہونا، اور ڈرائیونگ سمیت روزمرہ زندگی کی دیگر سرگرمیوں میں کمی آجانا شامل ہیں۔ اس کے علاوہ نیند اور فوکس کے مسائل، بھوک میں کمی، منفی سوچ، خود اعتمادی میں کمی، خوف اور خودکشی کے خیالات بھی واضح طوہر پر ڈپریشن کے عارضے کی نشاندہی کرتے ہیں۔
معاشرتی رویوں میں مثبت تبدیلی
جرمن شہر ڈوسلڈورف میں قائم نفسیاتی امراض کے علاج کے ایک مشہور کلینک کے چیف ڈاکٹر یا اسپیشلسٹ کرسٹیان لانگے آشنفیلڈ کہتے ہیں،''ڈپریشن کسی کو بھی متاثر کر سکتا ہے، چاہے وہ جوان ہو یا بوڑھا، اسے پہلے سے کوئی بیماری ہے یا نہیں، موسمی تبدیلیوں، جینیاتی رجحان، زندگی کے سخت واقعات یا یہاں تک کہ عالمی واقعات تک انسانی نفسیات پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں اور یہ ڈپریشن تک کا سبب بن سکتے ہیں۔‘‘
انہوں نے کہا کہ ذہنی بیماریوں کے بارے میں معاشرے کا نظریہ بتدریج مثبت انداز میں تبدیل ہو رہا ہے، تب بھی متاثرہ افراد کو بدنامی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو اکثر ان کی بیماری کے علاوہ ان پر اضافی دباؤ ڈالنے کا سبب بنتا ہے۔
ڈاکٹر کرسٹیان لانگے آشنفیلڈ یہ تجویزپیش کی کہ معاشرہ طبی الفاظ کو زیادہ احتیاط سے استعمال کرے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ، ''نارمل حالات کو بیان کرتے ہوئے طبی الفاظ کے استعمال سے گریز کیا جانا چاہیے۔ اس لیے ہر کمی افسردگی یا ہر ناخوشگوار صورت حال کا ایک ہی محرک نہیں ہوسکتا ہے۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔