جمہوری رہنما آمریت کے خلاف مزید فعال ہوں، ہیومن رائٹس واچ
ہیمومن رائٹس واچ کی جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں آمرانہ سوچ فروغ پا رہی ہے اور عالمی طاقتیں جمہوریت کا دفاع کرنے میں ناکام نظرآرہی ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کے ترجمان کینتھ روتھ نے کل جمعرات، 13 جنوری کو ایک بین الاقوامی خبر رساں ادارے کو دیے گئے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جمہوری حکمرانوں کی جانب سے جمہوری اقداراورحقوق کی موثرحمایت کرنے میں ناکامی ہی دنیا میں بڑھتے ہوئے آمرانہ رویے کو فروغ دینے کا سبب بنی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ جمہوری طور پر منتخب لیڈران کی طرف سے کورونا وبا کے سبب بڑھتی ہوئی بے چینی اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسے عالمی چیلنجزکے مقابلے میں جرأت مندانہ اور اصولی قیادت دکھانے کی اشد ضرورت ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے خائف ہیں کہ اگرجمہوری حکمرانوں نے اپنی آواز بلند نہیں کی، جو کہ وقت کی اشد ضرورت ہے، تو یہ دنیا بھر میں مایوسی اور اضطراب کا باعث بنے گا اور اس سے آمریت کی سوچ کو فروغ ملے گا۔ 750 صفحات پر مشتمل سالانہ رپورٹ میں چین، روس، بیلاروس اور مصر جیسے ممالک میں مخالفین کی آوازوں کے خلاف ہونے والی کاروائیوں سے متعلق حقائق درج ہیں نیز میانمار اور سوڈان سمیت دنیا بھر میں ہونے والی حالیہ فوجی بغاوتوں کو بھی اجاگر کیا گیا ہے اور ان ممالک میں آمرانہ رجحانات کے حامی حکمرانوں کے ابھر کر سامنے آنے پر خدشات کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اس رپورٹ میں ان ممالک کا تذکرہ بھی ہے جو کہ کبھی جمہوری سمجھے جاتے تھے لیکن پچھلے چند سالوں میں وہاں بھی آمرانہ سوچ کے حامی لیڈر سامنے آئے ہیں۔ ان ممالک میں ہنگری، پولینڈ، برازیل اور پچھلے سال تک، امریکا بھی شامل ہے۔
روتھ کا کہنا ہے کہ حالانکہ امریکا میں اس وقت جمہوری قیادت ہےلیکن سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے 2020 ء کے انتخابات کے نتائج تبدیل کرنے کی کوششوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امریکا میں جمہوری حکومت کے قیام پر اب تک سوالیہ نشان لگا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹرمپ کے حامیوں کی طرف سے گزشتہ سال کیپیٹل ہل پر دھاوا بولنے اور وہاں ہونے والی ہنگامہ آرائی ' واقعی صرف شروعات تھی‘۔ انہوں نے کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ 6 جنوری کو واشنگٹن ڈی سی میں ہنگامہ آرائی 'انتخابات کے نتائج کو رد کرنے اور اسے سبوتاژ کرن کی کوشش تھی،‘ اور اب بھی ایسی ڈھکی چھپی کوششیں جاری ہیں جن کا مقصد اگلے صدارتی انتخابات پر اثر انداز ہونا ہے۔
امریکا میں جمہوریت کے دفاع کی اشد ضرورت ہے‘ اور ان تمام خطرات کو تسلیم کرتے ہوئے، روتھ نے روایتی دانشمندی کو چیلنج کیا اور اس بات پر زور دیا ہے کہ آمریت سر اُٹھا رہی ہے اور جمہوریت پر زوال آرہا ہے لیکن درحقیقت دنیا کے بہت سے آمر خود کو تیزی سے کمزورحالت کی طرف دھکیل رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے جمہوریہ چیک اور اسرائیل کی طرح کے 'بدعنوان آمر‘ کو نکالنے کے لیے وسیع پیمانے پر مختلف سیاسی جماعتوں کے وسیع اتحاد کے ابھرنے پر روشنی ڈالی اور جمہوریت کے حامی لوگوں کو مظاہروں اور بڑے پیمانے پر سول نافرمانی کی تحریکوں کی طرف آنے کا اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے اس بات کا ذکر بھی کیا کہ حراست یا گولی لگنے کے خطرے کے باوجود دنیا کو میانمار اور سوڈان جیسی ظالمانہ فوجی حکومتوں کے خلاف آواز اٹھانی چاہیے۔
روتھ نے کہا، ''ان لوگوں کے خلاف بہت اہم مزاحمت جاری رہنی چاہیے جو آمرایت کو دوبارہ نافذ کرنا یا اسے برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔‘‘ ان کا کہنا تھا ، ''اس بڑھتی ہوئی مزاحمت کے پیش نظر، آمریت پسند حکمرانوں نے، جو پہلے جمہوری عمل کو برقرار رکھنے کی کوشش کی تھی، بہت سے معاملات میں، دکھاوا کرنا چھوڑ دیا ہے۔‘‘
روتھ نے کہا کہ روس، ہانگ کانگ، یوگنڈا اور نکاراگوا جیسے ممالک نے کھلے عام تمام اپوزیشن سے چھٹکارا پانے، میڈیا کو خاموش کروانے اور عوامی مظاہروں پر پابندی لگانے کے بعد انتخابی جلسے منعقد کرنے کے ڈرامے کیے ہیں۔ روتھ کا ماننا ہے کہ گرچہ ایسے حکمران یہ انتخابات جیت سکتے ہیں، لیکن اس طرح کے بے جان انتخابات کوئی بھی قانونی حیثیت نہیں رکھتے۔
اقتدار پر قبضے اور دوستانہ رویے کے باوجود لوگ با آسانی ان آمرانہ سوچ کے مالک لیڈروں کے کھوکھلے وعدوں کی حقیقت دیکھ سکتے ہیں اور آمریت سے منہ پھیر سکتے ہیں تاکہ جمہوری حکومتوں کے لیے راستہ بنایا جاسکے۔ لیکن فی الحال بہت سے جمہوری طور پر منتخب لیڈر جمہوریت کے فوائد کو واضح طور پر عوام کو دکھانے اور ایسی قیادت کے لیے درکار اصول اپنانے میں ناکام ہیں۔
روتھ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ انہیں لگتا ہے کہ اور اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ جمہوری معاشروں کے لازمی جز پیچھے رہ گئے ہیں۔ ''جمہوریت کے زیرِ انتظام بہتر حکمرانی اور دنیا بھر میں انسانی حقوق کے دفاع کے لیے ایک زیادہ مستقل نقطہِ نظر کی ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر امریکا میں صدر جو بائیڈن نے انسانی حقوق کو اپنی خارجہ پالیسی کا اہم جز بنایا اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرح تمام آمرانہ سوچ کے مالک حکمرانوں کے لیے پسندیدگی کا اظہار نہیں کیا۔ لیکن وہ مکمل طور پر جمہوریت کا دفاع کرنے میں ناکام رہے۔‘‘
روتھ کے بقول، صدر بائیڈن کی خارجہ پالیسی مصر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسی جابر حکومتوں کے حوالے سے کافی روایتی نظر آتی ہے۔ امریکی صدر اور دیگر جمہوری ممالک آمریت کی اس سوچ سے نجات پانے کے لیے بہت معمولی اقدامات کر رہے ہیں۔ روتھ نے اپنے بیان میں اس بات سے خبردار بھی کیا کہ اس طرح کے قلیل المدتی حل سخت ترین عالمی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔