پورنو گرافی: جنوبی کوریامیں اداکاروں کی خودکشیوں کے معاملوں میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے؟
موبائل فون، انٹرنیٹ اسپیڈ اور دوسرے جدید ڈیجیٹل آلات بشمول آن لائن گیمز اور ایپس کا استعمال جنوبی کوریائی باشندے بہتر انداز میں جانتے ہیں۔
ترقی یافتہ اقوام میں شمار کیے جانے والے جنوبی کوریا کا معاشرہ جس تیز رفتاری سے ٹیکنیکل دریافتوں سے آشنا ہوتا جا رہا ہے، ویسے ہی اس کی عوام کو احساس ہوتا جا رہا ہے کہ ہر جدید شے کے استعمال کی قیمت معاشرتی و اخلاقی زوال کی صورت میں اجتماعی طور پر چکانا پڑتی ہے۔
یہ امر اہم ہے کے جنوبی کوریائی باشندوں کو قریب قریب سبھی موبائل یا کمپیوٹر ایپس کے نام حفظ ہیں اور وہ ان کے استعمال سے بخوبی آگاہ ہیں۔ اب ان لوگوں کو احساس ہونے لگا ہے کہ سبھی ایپس چمکتی شے کی طرح ہیں اور یہ ان کے لیے بیش قیمت اور مفید بھی نہیں ہیں۔ یہ لوگ بتدریج ان کے تاریک پہلووں سے آگاہ ہوتے جا رہے ہیں۔ انہی میں ایک ایپ 'ڈیپ فیک‘ پورنوگرافی ہے۔
خصوصی درخواست بنام صدر
تین لاکھ پچھتر ہزار افراد اُس آن لائن پٹیشن یا درخواست پر دستخط کر چکے ہیں، جو ملکی صدر کی رہائش گاہ بلُو ہاؤس کو روانہ کی جائے گی۔ اس پٹیشن میں جنوبی کوریائی عوام نے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت 'ڈیپ فیک‘ پورنوگرافی یا جعلی فحش فلم سازی کے خلاف انتہائی سخت اقدام کرتے ہوئے اس تک رسائی کو ممنوع قرار دے۔
ان فلموں میں ایک ایپ کے ذریعے جنوبی کوریا کی مشہور خاتون اداکاروں کی فحش فلمیں تیار کر کے مارکیٹ کی جا رہی ہیں۔ جعلی آن لائن اور سوشل میڈیا مواد کی وجہ سے جنوبی کوریا کی کئی اداکاروں نے گزشتہ مہینوں میں خودکشیاں بھی کی ہیں۔
چیٹ بوٹ
جنوبی کوریائی لوگوں کی آن لائن پٹیشن ایسے وقت میں ملکی حکومت کے سربراہ یعنی صدر کو پیش کی جا رہی ہے، جب دارالحکومت سیئول کی ایک ڈیجیٹل کمپنی نے مصنوعی دانش سے چلنے والی 'چیٹ بوٹ‘ سروس کو کلی طور پر بند کر دیا ہے۔ یہ پابندی رواں برس گیارہ جنوری کو لگائی گئی کیونکہ صارفین نے سروس فراہم کرنے والی کمپنی اسکیٹر لیب کو حقیقت میں دیوار سے لگا کر بے بس کر دیا تھا۔
اس سروس کے ذریعے انتہائی فحش اور 'غلیظ پیغامات‘ کا تبادلہ کیا جاتا تھا۔ چیٹ بوٹ ایک سوفٹ ویئر ہے، جس میں آن لائن بات چیت کی جا سکتی ہے لیکن اس میں براہِ راست کوئی رابطہ نہیں ہوتا۔
ڈیپ فیک پورنو
اس ایپلی کیشن میں کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے پہلے سے موجود کسی اداکار یا اداکارہ کی تصاویر کو ایک نئے مگر غلط انداز میں استعمال کر کے فحش فلم تیار کی جاتی ہے۔ اس میں مکالمے اور جنسی فعل کی ادائیگی کی آوازیں بھی شامل کرنا آسان ہے۔ اس عمل کو کمپیوٹر جینریٹڈ امیجری (CGI) کہتے ہیں۔ ایسی ویڈیوز میں بھی مصنوعی دانش یا آرٹیفیشل انٹیلی جنس کا استعمال کیا جاتا ہے۔
ڈیپ فیک ویڈیوز میں مردہ اداکاروں کی تصاویر کے استعمال سے انہیں ایک طرح سے زندہ کر دیا جاتا ہے۔ ماڈلنگ انڈسٹری میں فوٹو شوٹ کروانے والی خواتین ماڈلز کی تصاویر کو کسی بھی گلوکارہ کے گیتوں کے ساتھ جوڑنا اب ممکن ہے۔ ڈیپ فیک پورن ویڈیوز سن 2017 میں دستیاب ہونا شروع ہو گئی تھیں۔
قانون سازی مزید سخت ہو سکتی ہے
ڈیپ فیک پورنوگرفی کے خلاف مہم اس وقت بہت تیزی سے سوشل میڈیا پر بھی عام ہوتی جا رہی ہے۔ ٹویٹر پر ایسے مطالبات سامنے آنے لگے ہیں کہ ایسی تصاویر سے جعلی فحش فلمیں بنانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور ان کے نام بھی ظاہر کیے جائیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایسا کرنے والوں کو سخت سزائیں دی جائیں تا کہ اس کام کی حوصلہ شکنی ہو سکے۔
جنوبی کوریا میں گزشتہ برس جون میں ایک قانون نافذ کیا گیا تھا اور اس کے تحت ڈیپ فیک ویڈیوز کو خلافِ قانون قرار دے دیا گیا تھا۔ اس کا ارتکاب کرنے والے کو پانچ برس کی قید اور پچاس ملین وون تک ( سینتالیس ہزار دو سو امریکی ڈالر) کا جرمانہ بھی عائد کیا جا سکے گا۔ اس قانون کے نفاذ کا جنوبی کوریا میں خاطر خواہ اثر ظاہر نہیں ہوا تھا اور اسی باعث ایک نئی درخواست یا پٹیشن حکومت کو پیش کی جا رہی ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔