پاکستان میں خواتین کے خلاف جرائم: سزائے موت کوئی حل نہیں
جرائم کی روک تھام پاکستانی معاشرے میں ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ وجہ کی جڑ تک پہنچنے کے بجائے توجہ کا مرکز سخت ترین سزا ہوتی ہے۔
فروری 2022ء میں نور مقدم کے بیہمانہ قتل پر ظاہر جعفر کو سزائے موت سنائی گئی۔ اس سزا کے خلاف اپیل میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے سیشن کورٹ کی دی گئی سزا کو برقرار رکھا اور مقتولہ کا ریپ کرنے پر مجرم کی عمر قید کو بھی سزائے موت میں بدل دیا۔
جولائی 2021ء میں نور مقدم کے وحشیانہ قتل کی تفصیلات، تصاویر اور سی سی ٹی وی فوٹیجز نے ایک طرف ان گنت لوگوں کے ذہنوں کو ماؤف کیا تو دوسری طرف مقتولہ کی فیملی اور دوستوں کو تاحیات کرب اور صدمے میں مبتلا کیا۔ ظاہر جعفر کی سزائے موت، نور مقدم کو واپس نہیں لا سکتی اور نا ہی اس کے چاہنے والوں کی اذیت میں کمی لا سکتی ہے۔
2018ء میں چھ سالہ زینب کے ریپ اور قتل کے جرم میں مجرم کو پھانسی دی گئی۔ 2021ء میں موٹر وے گینگ ریپ کیس میں دو مجرموں کو سزائے موت سنائی گئی۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا سزائے موت سے خواتین/لڑکیوں کے خلاف جرائم میں کوئی کمی آ رہی ہے؟ جواب نہیں میں ہے۔
ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے مطابق 2018ء میں خواتین کے خلاف جنسی زیادتی کے 800 سے زائد کیسز درج کیے گئے۔ 2022ء میں قومی اسمبلی میں خواتین کے خلاف جرائم کی ایک رپورٹ پیش کی گئی، جس کے مطابق 2019ء سے 2021ء کے دوران خواتین کے خلاف تشدد کے کل 63،000 سے زائد کیسز درج ہوئے۔
ان میں سے چار ہزار کے قریب گھریلو تشدد، ایک ہزار سے زائد خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا، دس ہزار سے زائد خواتین کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور چھ سو کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کی گئی۔
خواتین کے خلاف جرائم کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظر 2019ء میں انسانی حقوق کی وزارت نے ملکی سطح پر ان جرائم کے خاتمے کے لیے ایک پالیسی ڈرافٹ بنایا۔ لیکن اس کی قانون سازی پر خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔ جرائم کی روک تھام پاکستانی معاشرے میں ایک بڑا مسئلہ ہے کیونکہ وجہ کی جڑ تک پہنچنے کے بجائے توجہ کا مرکز سخت ترین سزا ہوتی ہے۔
معاشرے کی طرف سے بھی سخت سزاؤوں کے مطالبے ایک عام سی بات ہے۔ معاشرے کے اسی رویے کی جھلک ہمارے انصاف کے نظام میں بھی نظر آتی ہے۔ خاص طور پر کوئی جرم خواتین کے خلاف ہو تو اس میں سخت ترین سزا کو ترجیح دی جاتی ہے۔ مثال کے طور پر ریپ کے مجرم کو سزائے موت دی جاتی ہے۔ تشریح کچھ یوں کی جاتی ہے کہ آئندہ کوئی شخص خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے بارے میں نا سوچے۔
جب سزائے موت خواتین کے خلاف جرائم کو کم کرنے میں مددگار ثابت نہیں ہو رہی ہے تو ہمارا معاشرہ اور قانون ساز اسمبلی متبادل آپشنز پر غور کیوں نہیں کر رہے ہیں؟ جیسا کہ سزا یافتہ مجرموں کی rehabilitation، پدرسری سوچ کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات، لڑکوں کی تربیت کے طریقوں میں تبدیلی اور تعلیمی نصاب میں بڑے پیمانے پر منظم تبدیلیاں۔
سزائے موت شاید عارضی طور پر کسی کے جذبات کی تسلی کے لیے کارآمد تو ثابت ہو سکتی ہے۔ لیکن اگر انہی مجرموں کو قید کے دوران یہ غور کرنے کے مواقع دیے جائیں کہ انہوں نے گھناؤنے جرائم کا ارتکاب کیوں کیا؟ وہ کیا وجوہات تھیں، جو انہیں خواتین کے خلاف جرائم کی طرف لے کر گئیں؟ انہیں اس جرم پر شرمندگی، ندامت، افسوس اور ملال کا موقع دیا جائے کہ وہ قیمتی جان کے ضیاع کا سبب بنے، ایک مظلوم کی فیملی کو زندگی بھر کی اذیت اور کرب میں مبتلا کر گئے۔
مجرموں کو اس بات پر سوچنے پر مجبور کیا جائے کہ یہ جرائم کس طرح خواتین کو معاشرے میں غیر محفوظ کرتے ہیں۔ اور یہ خواتین ان مجرموں کی فیملی میں بھی ہوتی ہیں۔ ایسے جرائم نا صرف گھر کے باہر بلکہ گھر کے اندر بھی لڑکیوں اور عورتوں کو خوف و ہراس میں مبتلا رکھتے ہیں۔ لیکن ایسا کیوں ہے کہ ہمارا معاشرہ جرم کے بعد صرف سزا پر غور کرتا ہے اور اس جرم کی وجوہات کی جڑوں میں جانے پر وقت صرف نہیں کرتا۔
خواتین کے خلاف جرائم کی سب سے بڑی وجہ معاشرے کی پدرسری سوچ ہے۔اکثر لوگ مرد کو عورت کے مقابلے میں زیادہ سمجھدار سمجھتے ہیں، زیادہ باصلاحیت، فیصلہ سازی میں زیادہ ماہر اور خواتین کا رکھوالا بھی۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اس لیے مردوں کو خواتین پر فوقیت حاصل ہے۔ لڑکوں کو تعلیم کے زیادہ مواقع دینے چاہییں کیونکہ وہ گھر کا کفیل ہے۔ اور کچھ تو یہ کہتے ہوئے بھی جھجک محسوس نہیں کرتے کہ مردوں کو عورت پر جسمانی تشدد کا حق بھی حاصل ہے اگر وہ بات نا مانے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے کے زیادہ تر گھرانوں میں لڑکوں کی تربیت اسی سوچ کے تحت کی جاتی ہے اور لڑکیوں کو یہ بات باور کرائی جاتی ہے کہ انہیں مرد کی ہر بات ماننی ہے۔ نتیجتا شعور سنبھالتے ہی مرد خود کو خواتین کے وجود کے مقابلے میں زیادہ اہمیت کا حامل سمجھتے ہیں اور اپنی حاکمیت کا لوہا منوا کر دم لیتے ہیں۔
معاشرے میں خواتین کے خلاف جرائم کی روک تھام کے لیے والدین کو اولاد کی تربیت میں واضح تبدیلی کی ضرورت ہے تا کہ صدیوں سے موجود پدرسری سوچ کی جڑوں کو کھوکھلا کر کے اس نظام کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اس کے لیے ڈیجیٹل ٹریننگ کے ذریعے ملکی سطح پر شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔
اس کے ساتھ ہی پاکستان کے تعلیمی نظام میں بھی عورتوں کے وجود کی اہمیت کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشرے میں تربیت یافتہ اساتذہ لازمی ہیں، جو زندگی کے ہر شعبے اور مرحلے میں خواتین کی اہمیت اور ان کے کردار کی وضاحت کریں اور لڑکوں کے ذہنوں میں خواتین کے حقوق پیوست کریں۔
ان تبدیلیوں کے اثرات چند دن، ماہ یا سال میں نظر نہیں آئیں گے لیکن یہ امید کی جا سکتی ہے کہ 20 سال بعد جب ایک نئی نسل عملی زندگی میں قدم رکھے گی تو معاشرے میں خواتین کے خلاف جرائم میں واضح کمی ہو گی۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔