ڈیتھ کیفے: صدمات اور پریشانیوں کو برداشت کرنے کا فورم
ڈیتھ کیفے خاص طور پر کورونا وائرس کی وبا کے دوران متاثرہ افراد کی آپس میں گفتگو کا فورم بن چکا ہے۔ تقریباً ایک سو ممالک میں لوگ اس فورم پر ہونے والی بحثوں کا حصہ بنتے ہیں۔
ڈیتھ کیفے ایک ورچوئل فورم ہے اور اس فورم میں ایسے افراد شریک ہوتے ہیں، جو زندگی میں ملنے والے اپنے کئی طرح کے دکھ، مصائب اور پریشانیاں ایک دوسرے کو سناتے ہیں۔ اس فورم پر ایسے عوامل کے حوالے سے منفی گفتگو نہیں کی جاتی بلکہ سب کچھ مثبت انداز میں زیر بحث آتا ہے۔ یہاں تک کہ موت کے بارے میں بھی تفصیلی بات چیت مناسب اور مثبت انداز میں کی جاتی ہے۔ اس کیفے میں ہونے والی گفتگو میں شریک افراد موت کے انسانی زندگیوں پر مرتب ہونے والے اثرات کا جائزہ لینے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔
سب سے پہلے سن 2004ء میں سوئٹزرلینڈ کے ایک انتھروپولوجسٹ یا ماہر بشریات بیرنارڈ کریٹاس نے 'کیفے مورٹل‘ کا انعقاد کیا تھا۔ اس ابتدائی کاوش کے بعد سن 2011ء میں ایک انگلش ویب ڈویلپر جان انڈرووڈ نے اپنے مکان سے 'ڈیتھ کیفے‘ فورم متعارف کرایا۔ انڈرووڈ کے اس کیفے کو جلد ہی یورپ، شمالی امریکا، جزائر غرب الہند (کیریبیین)، مشرقِ بعید اور خاص طور پر جاپان اور آسٹریلیا بھر میں کافی مقبولیت حاصل ہو گئی تھی۔ جان انڈرووڈ سن 2017ء میں اچانک خون کے سرطان میں مبتلا ہو کر انتقال کر گئے تھے۔ ان کی رحلت کے بعد ان کی بیوہ اور دوستوں نے ڈیتھ کیفے کو فعال رکھا۔
اس فورم نے کورونا وائرس کی عالمی وبا کے دوران خصوصاً بیمار افراد کو اظہار کا ایک ذریعہ دے دیا۔ ایسے افراد میں ایک پینتیس سالہ خاتون ماریسا اولیور بھی شامل ہیں۔ اس خاتون کے مطابق انہوں نے ڈیتھ کیفے فورم میں شمولیت ایک ایسے وقت پر کی، جب انہیں بیماری کے دوران سانس لینے میں دشواری کی وجہ سے شدید گبھراہٹ اور بے چینی کی کیفیت کا سامنا تھا۔
ماریسا اولیور کے مطابق انہوں نے اسی کیفیت میں ڈیتھ کیفے میں زُوم نامی ایپ کے ذریعے شمولیت اختیار کی اور یہ جان کر انہیں حیرت ہوئی کہ اس فورم میں شریک افراد کسی دوسرے انسان کے ساتھ گفتگو میں اسے نیچا دکھانے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ موت سے جڑے معاملات کا احاطہ انتہائی شفقت والے انداز میں کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
ماریسا اولیور میں رواں برس مارچ میں کووڈ انیس کے وائرس کی تشخیص ہوئی تھی۔ اس خاتون نے اپنی بیماری کے دوران ڈیتھ کیفے فورم کی بحثوں کو الفاظ کی شکل دینے کے ساتھ ساتھ جو کچھ حاصل کیا، اسے بھی تحریر کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ اولیور کے مطابق موت کی استعاراتی صورت اور تشبیہاتی کیفیت کو بھی زیر بحث لایا جاتا ہے، مثلاً محبت کے کسی تعلق کے المناک انجام کا تذکرہ، پرانی دوستیوں کا ٹوٹنے کا غم اور برسوں سے بیماریوں سے نبرد آزما افراد کے احساسات وغیرہ۔
اولیور نے بتایا کہ ایک فورم میں شریک ایک شخص نے اپنی بیوی کی موت کے بعد اپنے مکان میں سے اس کی اشیاء کو چھ ماہ بعد بھی ہٹانا مناسب نہ سمجھا۔ ماریسا اولیور نے کہا کہ ایک بحث میں شریک ایک عورت نے تبدیلیٴ قلب کے آپریشن کے بعد اپنے اندرونی جسمانی اعضاء کے بتدریج زوال کی کیفیت کو بیان کرنے میں جہاں معلومات دیں وہاں امکاناً اسے ایسا کرنے میں سکون بھی ملا۔
اسی طرح امریکی دارالحکومت واشنگٹن کی جین کارل نے واضح کیا کہ انہیں ڈیتھ فورم پر اپنے شرابی اور نشے کے عادی باپ کے ہاتھوں جنسی استحصال اور پھر اس کی چھ برس قبل موت کی تفصیلات بیان کرنے اور دوسروں کی تکالیف کو سننے سے سکون حاصل ہوا ہے۔ جین کے مطابق انہیں یہ سب کچھ سن کر محسوس ہوا کہ وہ زندگی کی نامہربانیوں سے متاثرہ کوئی واحد انسان نہیں ہیں۔
ڈیتھ کیفے کسی بھی پریشانی یا مسئلے کا کوئی حل تجویز نہیں کرتا۔ یہ مسائل اور مصائب ایک دوسرے کو بتانے اور سنانے کا فورم ہے۔ کئی ماہرین نفسیات اس فورم پر تسلسل کے ساتھ لوگوں کو صدمات اور دکھوں کے اظہار میں مدد دیتے ہیں اور اس طرح ان کی تشفی کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امریکا میں تو کئی مقامات پر نفسیات دان انتہائی علیل اور قریب المرگ افراد کو موت سے گھبرانے کے بجائے اس کو حوصلے سے گلے لگانے کی تلقین بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔