انٹرنيٹ پر محبت تلاش کرنے والوں کی دال کيوں نہيں گلتی؟
پاکستان ميں ’آن لائن ڈيٹنگ‘ ايک ايسا معاملہ ہے جسےچند حلقوں ميں ضرورت سمجھا جاتا ہے مگر بيشتر حصوں ميں اسے مذہب اور روايات کے منافی بھی قرار ديا جاتا ہے۔ کيا انٹرنيٹ پر محبت تلاش کرنا واقعی غلط ہے؟
محمد علی شاہ اب امید چھوڑ چکے ہيں۔ گزشتہ تين سالوں سے ڈيٹنگ ايپس پر ہزاروں تصاوير اور پروفائلز ديکھنے کے بعد بھی انہيں آج تک اپنا جيون ساتھی نہيں مل سکا ہے۔ قدامت پسند پاکستانی معاشرے ميں گو کہ پسند کی شادياں بھی ہوتی ہيں مگر زيادہ تر خاندانوں ميں شادياں گھر والے ہی طے کراتے ہيں۔ 'آن لائن ڈيٹنگ‘ کے ليے چند پليٹ فارم موجود ضرور ہيں ليکن ان پر لڑکياں اپنی شناخت، اصل تصاوير اور معلومات عام نہيں کرتیں، جس سبب شادی يا جيون ساتھی ڈھونڈنے کا يہ طريقہ کار ملک ميں نہ تو زيادہ مقبول ہے اور نہ ہی زيادہ کامياب۔
دارالحکومت اسلام آباد کے رہائشی محمد علی شاہ نے بتايا، ''آن لائن ڈيٹنگ کا پاکستان ميں کوئی فائدہ نہيں۔‘‘ چھتيس سالہ شاہ کا اپنا کاروبار ہے۔ وہ اب تک سينکڑوں مرتبہ لڑکيوں سے ملنے جا چکے ہيں مگر کہيں دال نہ گلی۔ اب نوبت يہ آ گئی ہے کہ ان کے دوست احباب طنزيہ انہيں طرح طرح کے ناموں سے پکارنے لگے ہيں۔
کئی مغربی اور مشرقی معاشروں ميں آج کل 'آن لائن ڈيٹنگ‘ عام ہے۔ تاہم پاکستان ميں'آن لائن ڈيٹنگ‘ ايپس استعمال کرنے والوں کو بدنامی، ہراسگی اور تنقيد کا سامنا رہتا ہے۔ يہ طريقہ اختيار کرنے والوں کو اکثر اہل خانہ کی کڑی تنقيد کا سامنا رہتا ہے۔ اور اب تو حکومت نے بھی ايسی ايپس پر پابندی لگانا شروع کر دی ہے۔ پاکستانی معاشرے ميں شادی سے قبل کسی بھی قسم کے جنسی تعلقات اور ہم جنس پرستی ممنوع ہے اور لوگوں کو کڑی سزائيں دی جا سکتی ہيں۔ ڈيٹنگ کا کلچر بھی کچھ زيادہ مقبول نہيں اور نہ ہی اسے اچھی نگاہ سے ديکھا جاتا ہے۔
شاہ کے مطابق، ''لڑکياں ہچکچاتی ہيں۔ وہ نہ اپنی اصل تصاوير شيئر کرتی ہيں اور نہ ہی نام۔‘‘ ان کے بقول وہ لڑکيوں کے نقطہ نظر کو سمجھ سکتے ہيں اور يہ سمجھداری بھی ہے۔ شاہ نے اپنی طلاق کے بعد ايپس کے ذریعے محبت تلاش کرنے کی کوشش کی۔ وہ کہتے ہيں کہ پاکستان ميں اکثر لوگ 'ڈيٹنگ‘ کا حقيقی مطلب نہيں جانتے۔ ''آپ بس ان سے ايک دو بار مليں اور وہ يہ کہہ ديتے ہيں کہ وہ سنجيدہ تعلقات تلاش کر رہے ہيں۔‘‘
سہیلیاں ایک دوسرے کی ساتھی
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ايک ستائيس سالہ خاتون نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر نيوز ايجنسی اے ايف پی کو بتايا کہ انہوں نے معروف ڈيٹنگ ايپ 'ٹنڈر‘ پر اپنا نام اور تصاوير شيئر کيں اور اس کا نتيجہ کچھ يوں نکلا، ''مجھے ميری سہيليوں کے ٹيلی فون آنے لگے کہ ہم سوچ بھی نہيں سکتے کہ تم ٹنڈر پر ہو۔‘‘ اس خاتون نے بتايا کہ ان کا اور ان کی سہيليوں کا ٹنڈر پر تجربہ ملا جلا رہا۔ ''جب ہم ميں سے کوئی ٹنڈر پر ملنے والے کسی شخص کے ساتھ ملنے جا رہا ہو، تو اکثر اسے محفوظ رکھنے کے ليے ہم بھی اسی مقام پر چلے جاتے ہيں، جہاں وہ مل رہے ہوں۔‘‘
'ڈيٹنگ ايپس پر پابندی کا مقصد ہماری روايات کی بقا ہے‘
حکومت پاکستان نے پچھلے ماہ ٹنڈر، گرائنڈر اور کئی ديگر ڈيٹنگ ايپس پر پابندی لگا دی۔ حکومت نے انہيں اپنا مواد 'ماڈريٹ‘ بنانے کا کہا مگر ايسا نہ کيے جانے پر حکومت نے قدم اٹھايا۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ اس سے پاکستان کے بڑے شہروں کے متوسط اور ہائی مڈل کلاس کے طبقے متاثر ہوئے کيونکہ اکثريتی پاکستانیوں کو اس طريقہ کار کے بارے میں علم نہیں ہے۔ دريں اثناء بڑی ايپس پر پابندی کے باوجود چند چھوٹی ايپس اب بھی فعال ہيں اور صارفين 'وی پی اين‘ اپنا راستہ ڈھونڈ رہے ہيں۔
شادياں کرانے والی کراچی کی ايک پچاس سالہ خاتون نے اے ايف پی کو بتايا، ''ڈيٹنگ ہماری ثقافت اور ہمارے مذہب کا حصہ نہيں۔ يہاں ہر چيز حلال طریقے سے ہوتی ہے بالخصوص زندگی بھر کے ليے ساتھی کی تلاش کا کام۔‘‘ ان کے بقول ايسی ايپس پر پابندی کا مقصد ہماری روايات کی بقا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔