عمران خان کے خلاف توہین مذہب کے مقدمے پر ناقدین کی تشویش
پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف کے رہنماؤں کے خلاف توہین مذہب کے مقدمےکے اندراج پر بعض حلقوں نے سخت تشویش کا اظہار کیا ہے۔
عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے خلاف توہین مذہب کے مقدمے کا اندراج گزشتہ ہفتے اس واقعے کے بعد کیا گیا تھا جس میں پاکستانی وزیر اعظم شہبازشریف اور ان کے ہمراہ سعودی عرب کے سرکاری دورے پر گئے ہوئے ایک وفد پر پاکستانی زائرین کی جانب سے مسجد نبوی کے احاطے میں نامناسب آوازیں کسی گئی تھیں۔ شہباز شریف کے حامیوں کا الزام ہے کے پاکستان کے سرکاری وفد کو مسجد نبوی میں تضحیک کا نشانہ بنانے والوں کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے تھا۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی متعدد ویڈیوز میں لوگوں کوشہباز شریف اور ان کے وفد کے سامنے'غدار‘ اور 'چور‘ کے نعرےلگاتے ہوئے سنا اور دیکھا جا سکتا پے۔ اس واقعے کے بعد پاکستان میں غم وغصے کے لہر دوڑ گئی ہے۔ متعدد مذہبی علما کا کہنا تھا کہ غیر مناسب الفاظ پر مبنی سیاسی نعرے بازی سے مسجد اور شعائر اسلام کی توہین کی گئی۔ سعودی حکام کا کہنا ہے کہ انہوں نے مبینہ طور پر اس واقعے میں ملوث متعدد افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔
پاکستانی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے توہین مذہب کےمقدمے کے اندراج کا دفاع کرتے ہوئے اس واقعے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ رانا ثنا اللہ نے اس بات کا عندیہ بھی دیا کہ اگر عمران خان اور ان کے ساتھی اس واقعے میں ملوث پائے گئے تو انہیں گرفتار بھی کیا جا سکتا ہے۔ عمران خان اور ان کے حامیوں نے توہین مذہب کے الزامات کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے اس مقدمے کو خارج کرنے کی استدعا بھی کی ہے۔ عدالت میں اس مقدمے پر نو مئی کو کارروائی متوقع ہے۔ بعض مبصرین کے خیال میں سابق وزیر اعظم کے خلاف توہین مذہب کے مقدمے کی کارروائی سے پاکستانی معاشرے میں پہلے سے موجود سیاسی تقسیم مزید گہری ہو گی۔
عمران خان کے خلاف توہین مذہب کے ہتھیا ر کا استعمال ؟
مبصرین کے خیال میں توہین مذہب کے مقدمے سے نا صرف سابق وزیر اعظم اور ان کے ساتھیوں کی اپنی بلکہ ان کے اہل خانہ کی زندگیوں کوبھی شدید خطرات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انسانی حقوق کمیشن (ایچ آرسی پی) کے رکن اسد بٹ کے مطابق، ''عوامی اجتماعات کے دوران ان رہنماؤں کی زندگیوں کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، جہاں کوئی بھی جنونی انہیں نشانہ بنا سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ حکام کو فوری طور پر اس مقدمے سے دستبردار ہو جانا چاہیے۔ ایچ آر سی پی نے حکومت کو متنبہ کیا کہ وہ توہین مذہب کو الزامات کو ایک 'ہتھیار‘ کے طور پر استعمال نا کرے۔ ٹوئٹر پر جاری ایک بیان میں انسانی حقوق کی اس تنظیم نے کہا، ''کوئی بھی حکومت یا سیاسی جماعت اس بات کی متحمل نہیں ہو سکتی کہ وہ اپنے حریفوں کے خلاف توہین مذہب کے الزامات کو بطور ہتھیار استعمال کرے۔‘‘
حکمران اتحاد میں شامل چند سیاست دانوں نے بھی توہین مذہب کے الزمات عائد کیے جانے کی مخالفت کی ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کی ایک رکن کشور زہرہ توہین مذہب کے مقدمے کے اندراج کو انتہائی خطرناک اقدام سمجھتی ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفگتو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کو فوری طور پر یہ مقدمہ ختم کرتے ہوئے بات چیت کے ذریعے اس کا حل تلاش کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس طرح کے مقدمات کی پیروی ملک کی سیاسی فضا کومزید زہر آلود کردے گی۔ کشور زہرہ نے کہا، ''میں سیاسی جماعتوں پر زور دوں گی کہ وہ مذہب کو سیاست سے جدا رکھیں۔‘‘
توہین مذہب، ایک حساس موضوع
توہین مذہب پاکستان میں ایک حساس نوعیت کا معاملہ ہے، جہاں لوگوں کو پیغمبر اسلام کی مشتبہ توہین کے الزمات پر قتل کیا جا چکا ہے۔ اس ضمن میں ایک افسوسناک واقعہ دسمبر میں پیش آیا تھا جب سیالکوٹ کی ایک فیکٹری میں بطور مینیجر کام کرنے والے ایک سری لنکن باشندے کو ایک متشدد ہجوم نے توہین مذہب کے مشتبہ الزامات کے آڑ میں بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔ یہ واقعہ دنیا بھر میں شہہ سرخیوں کا سبب بنا رہا۔
توہین مذہب کا قانون پاکستان کو اپنے قیام کے وقت انگریز نوآبادیاتی حکمرانوں سے ورثے میں ملا تھا۔ اس قانون کے مطابق، ''جانتے بوجھتے ہوئے بد نیتی کے ساتھ کیا گیا ایسا کوئی بھی عمل جو کسی بھی طبقے کے مذہبی جذبات یا عقائد کی توہین کا باعث بنے قابل سزا جرم ہے۔‘‘ بعد میں آنے والی دہائیوں میں فوجی آمر جنرل ضیا الحق نے انیس سو ستتر اور انیس سو اٹھاسی کے درمیان توہین مذہب کے قانون کی شقوں کو توسیع دی اور قرآن کی بے حرمتی کے مرتکب افراد کے لیے عمر قید کی سزا کو بھی اس قانون کا حصہ بنا دیا۔ بعد ازاں پیغمبر اسلام کی توہین کرنے والے کے لیے موت کی سزا کوبھی لازمی قرار دے دیا گیا۔ بین الاقوامی مذہبی آزادی سے متعلق ایک امریکی تھنک ٹینک کے مطابق پاکستان میں لگ بھگ اسی افراد توہین مذہب کے الزمات کے تحت جیلوں میں قید ہیں، جن میں سے نصف تعداد کو عمر قید اور سزائے موت کا سامنا ہے۔
ذاتی جھگڑوں کے لیے توہین مذہب کے قانون کا غلط استعمال
انسانی حقوق کی تنظیموں اور کارکنان کو یقین ہے کہ پاکستان میں توہین مذہب کےقوانین انتہائی سخت ہیں اور ان کا غلط استعمال با آسانی کیا جا سکتا ہے۔ اکثر موقعوں پر ان قوانین کو توہین مذہب سے ہٹ کر ذاتی جھگڑوں کا بدلہ لینےکے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ناقدین کے مطابق پاکستان میں مسیحی اور ہندو مذہب کے ماننے والوں کے علاوہ مسلم اقلیتی احمدیہ فرقے کے لوگوں کواکثر توہین مذہب کے قوانین کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیمیں طویل عرصے سے توہین مذہب کے متنازعہ قوانین میں تبدیلی یا ان کے خاتمے کا مطالبہ کرتی آئی ہیں جبکہ رجعت پسند اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی جماعتیں ان قوانین میں کسی بھی قسم کی ترمیم کی سخت مخالف ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی ایک کارکن شازیہ خان کے خیال میں توہین مذہب کے قوانین کو یکسر ختم کر دینا چاہیے تاکہ ان کے کسی بھی قسم کے غلط استعمال کو روکا جا سکے۔ انہوں نے کہا، ''ملک کو انتشار، بدامنی اور شدت پسندی کے دلدل میں دھنسنے سے روکنے کے لیے ان قوانین کا خاتمہ ازحد ضروری ہے ۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔