گُڑگاؤں میں ہندو مسلم فسادات، ہلاکتوں کی تعداد چھہ ہو گئی
بھارتی ریاست ہریانہ میں پیر کو ہوئے ہندو مسلم گروہوں کے مابین تشدد کے واقعات کے نتیجے میں ایک مسجد کے امام کی ہلاکت کے بعد دو روز سے جاری جھڑپوں میں ہلاکتوں کی تعداد چھہ تک پہنچ گئی ہے۔
بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی ہم سایہ ریاست ہریانہ کے علاقے گڑگاؤں میں حالیہ ہندو مسلم فسادات کے تناظر میں بدھ کو حکام نے کہا کہ ٹریفک کافی حد تک معمول پر آ گیا ہے جبکہ چند سڑکیں بدستور ویران پڑی ہیں۔ دریں اثناء ان جھگڑوں کے نتیجے میں ہونے والی اموات کی تعداد چھہ تک پہنچ گئی ہے۔
حالیہ فسادات پیر کو مسلم اکثریتی ضلع نوح میں ہندوؤں کی طرف سے ایک مذہبی جلوس کے دوران تشدد کی آگ بھڑکنے کے واقعے سے شروع ہوئے، جس کے نتیجے میں دو پولیس اہلکاروں سمیت چار افراد کی ہلاکت اور آس پاس کے علاقوں کے کم از کم 60 افراد کے زخمی ہونے کی اطلاعات تھیں۔ حکام کے مطابق بدھ کی صبح تک مزید دو شہری دم توڑ چکے تھے۔ ریاست ہریانہ کے وزیراعلیٰ منوہر لال کھٹّر نے بُدھ کو ایک بیان میں کہا، ''نوح میں ہونے والی جھڑپوں کی سازش کرنے والے مبینہ 116 تخریب کاروں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘‘
بھارت کے علاقے گُڑ گاؤں میں درجنوں ملٹی نیشنل کمپنیاں واقع ہیں ان میں گوگل، ڈیلؤئٹ اور امیرکن ایکسپریس بھی شامل ہیں۔ اسی مقام سے قریب 10 کلومیٹر کے فاصلے پر حالیہ جھگڑے ہوئے۔ یہ امر ہنوز واضح نہیں کہ آیا بُدھ کو مذکورہ کمپنیوں میں کام کرنے والا عملہ کام پر آیا، یا ان کے دفاتر کھلے تھے یا نہیں۔ جبکہ اس علاقے کے بیشتر اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کی اجازت دے دی گئی ہے تاہم بُدھ سے کئی تعلیمی اداروں نے سکیورٹی خدشات کی بنا پر تمام کلاسیں آن لائن کرنے کا فیصلہ کیا۔
دریں اثناء پولیس حکام کا کہنا ہے کہ صورتحال ''معمول‘‘ پر آگئی ہے اور تمام تعلیمی ادارے اور دفاتر کام کر رہے ہیں۔ تاہم چار یا اس سے زیادہ افراد کے اجتماع پر پابندی کے احکامات ہنوز جاری ہیں۔ گُڑگاؤں پولیس کے ترجمان سبھاش بوکن نے کہا کہ بشمول دارالحکومت دہلی حساس علاقوں میں منصوبہ بند مظاہروں کے لیے سکیورٹی فورسز بھی چوکس ہیں۔ انہوں نے کہا،''اضلاع میں اضافی فورسز کو تعینات کیا گیا ہے اور ہم صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
بھارت کے اکثریتی ہندوؤں اور اقلیتی مسلم برادری کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے دیکھا جاتا رہا ہے۔ لیکن 2014 ء میں وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے ان کی تعداد میں کمی آئی تھی تاہم سن 2020 میں مذہبی بنیادوں پر ہونے والے فسادات کے نتیجے میں 50 سے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔ تشدد کے ان واقعات کو شمال مشرقی دہلی میں کئی دہائیوں میں ہونے والے بدترین فرقہ وارانہ جھگڑے کہا جاتا ہے۔ ان فسادات کا محرک مودی حکومت کی طرف سے گزشتہ برس متعارف کرایا جانے والا شہریت سے متعلق قانون بنا جس کے بارے میں ناقدین کا کہنا ہے کہ اس قانون کا مقصد مسلمانوں کو مزید کمزور اور پسماندہ بنانا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔