بھارت میں فرقہ وارانہ فساد، مسجد نذر آتش، امام مسجد ہلاک
آئی ٹی ہب گروگرام میں شدت پسند ہندوؤں کے ہجوم نے ایک مسجد کو آگ لگا دی اور امام مسجد کو ہلاک کر دیا۔ یہ بھارت میں ہلاکت خیز مذہبی منافرت کے بڑھتے ہوئے واقعات کی تازہ ترین مثال ہے۔
نوح میں شروع ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد نے قومی دارالحکومت نئی دہلی سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع گروگرام کو بھی اپنی زد میں لے لیا۔ دوسری طرف بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت والی ریاست ہریانہ کے ضلع نوح (سابقہ میوات) میں حالات کشیدہ ہیں۔ انتظامیہ نے کئی علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیا ہے جب کہ بیشتر علاقوں میں امتناعی احکامات لاگو کر دیے گئے ہیں، جن کے تحت کسی بھی جگہ پر پانچ سے زائد افراد کا جمع ہونا ممنوع ہے۔ انٹرنیٹ سروسز بھی معطل کر دی گئی ہیں۔ میوات وہ تاریخی جگہ ہے، جہاں مولانا محمد الیاس نے تبلیغی جماعت کی داغ بیل ڈالی تھی۔
معاملہ کیا ہے؟
نوح میں تشدد کا یہ سلسلہ پیر کو اس وقت شروع ہوا جب شدت پسند ہندو تنظیم وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کے زیر اہتمام ایک مذہبی جلوس مسلم اکثریتی علاقے سے گزر رہا تھا۔ نوح پولیس کے ترجمان کرشن کمار کا کہنا تھا، ''جلوس کو ایک مندر سے دوسرے مندر تک جانا تھا، لیکن راستے میں ہی دو گروپوں کے درمیان تصادم ہو گیا، جس کے نتیجے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔‘‘ انہوں نے بتایا کہ ہلاک ہونے والوں میں ہوم گار ڈ کے دو افراد بھی شامل ہیں۔ ہوم گارڈ پولیس کی مدد کرنے والی ایک رضاکار فورس ہے۔
شرپسندوں نے درجنوں گاڑیوں اور دکانوں کو آگ بھی لگا دی۔ تشدد کے ان واقعات میں اب تک 30 سے زائد افراد زخمی بھی ہو چکے ہیں۔ تشدد کا یہ سلسلہ پیر کو رات گئے پڑوسی شہر گروگرام تک بھی پھیل گیا۔ گروگرام (سابقہ گڑگاؤں) بھارت میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کا دوسرا اور مالیاتی اور بینکنگ سروسز کا تیسرا سب سے بڑا مرکز ہے۔ اس کے علاوہ یہ بھارت میں میڈیکل ٹورزم انڈسٹری کا سب سے بڑا مرکز بھی ہے۔ تقریباً تمام ملٹی نیشنل کمپنیوں کے دفاتر یہاں ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ وی ایچ پی اور بجرنگ دل کی جانب سے جلوس کے اعلان کے باوجود سکیورٹی کے خاطر خواہ انتظامات نہیں کیے گئے تھے، حالانکہ گائے کی حفاظت کے نام پر کئی افراد کے قتل کے مفرور ملزم مونو منیسر نے ایک ویڈیو پیغام بھی جاری کیا تھا اور اس جلوس میں شامل ہونے کا اعلان بھی کیا تھا۔
مسجد نذر آتش
گروگرام پولیس نے ایک بیان میں کہا کہ پیر کی نصف شب کو سیکٹر 57 کی ایک مسجد پر سینکڑوں ہندو شدت پسندوں نے حملہ کر دیا۔ انہوں نے وہاں موجود امام مسجد اور ایک دوسرے شخص کو بری طرح مارا پیٹا۔ بعد میں 22 سالہ امام مسجد محمد سعد کی ہسپتال میں موت واقع ہو گئی جب کہ دوسرے زخمی کی حالت نازک بتائی جاتی ہے۔ حملہ آوروں نے مسجد کو آگ بھی لگا دی۔
مرکزی وزیر اور گروگرام سے رکن پارلیمان راؤ اندرجیت سنگھ نے مسجد پر حملے کی تصدیق کی اور کہا کہ مسجد کے امام سمیت دو افراد کو گولی مار دی گئی۔ ذرائع کے مطابق مسجد کی حفاظت کے لیے پولیس تعینات کی گئی تھی لیکن اس نے ہجوم کے خوف سے وہاں موجود افراد کو بچانے کی کوشش نہیں کی۔ پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ کئی حملہ آوروں کی شناخت ہو گئی ہے اور کچھ لوگوں کو حراست میں بھی لیا گیا ہے۔ ادھر ریاستی وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹّر نے تشددکے ان واقعات کی مذمت کی ہے اور کہا ہے، ''قصور وار عناصر کو بخشا نہیں جائے گا اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔‘‘
ٹرین میں تین مسلمانوں سمیت چار افراد کا قتل
پیر اکتیس جولائی کی صبح کو ریلوے پروٹیکشن فورس (آر پی ایف) کے ایک کانسٹیبل چیتن سنگھ نے جے پور ممبئی سینٹرل سپر فاسٹ ایکسپریس ٹرین میں اپنی خودکار رائفل سے فائرنگ کر کے اپنے ایک سینیئر افسر اور تین مسلمان مسافروں کو ہلاک کر دیا۔
ریلوے پولیس کا کہنا ہے کہ ملزم نے پہلے ٹرین میں رپورٹنگ افسر ٹیکارام مینا پر گولی چلائی۔ پھر دوسری کوچ میں بیٹھے عبدالقادر محمد حسین کو گولی مار دی۔ اس کے بعد وہ پینٹری کار میں پہنچا اور وہاں اختر عباس علی نامی شخص کو گولی مار دی۔ پھر اس ملزم نے تیسرے ڈبے میں پہنچ کر سردار محمد حسین نامی شخص کو بھی ہلاک کر دیا۔ اس واقعے کے حوالے سے ایک ویڈیو بھی وائرل ہو رہی ہے، جس میں چیتن سنگھ ایک لاش کے پاس کھڑے ہوکر کہہ رہا ہے، ''...اگر ووٹ دینا ہے، اگر بھارت میں رہنا ہے، تو میں کہتا ہوں کہ مودی اور یوگی، یہ ہیں دو۔‘‘
’یہ دہشت گردی کا واقعہ ہے‘
اس دوران بعض پولیس حکام کا کہنا ہے کہ اتر پردیش کے رہنے والے ملزم چیتن سنگھ کی دماغی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ لیکن یہ سوال بھی پوچھا جا رہا ہے کہ اگر واقعی اس کی دماغی حالت ٹھیک نہیں تھی، تو اسے اپنے ساتھ ہتھیار رکھنے کی اجازت کیوں دی گئی تھی؟
آل انڈیا مجلس اتحادالمسلمین کے صدر اور بھارتی رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے اس واقعے کو ''مسلمانوں کو ہدف بناکر دہشت گردانہ حملہ‘‘ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ دراصل مسلسل مسلم مخالف اور منافرت انگیز بیانات اور ایسے واقعات ہیں، جو ان پر روک لگانے میں وزیر اعظم نریندر مودی کی ''عدم دلچسپی‘‘ کا نتیجہ ہیں۔
انہوں نے ایک ٹویٹ میں پوچھا، ''کیا اس ملزم اور آر پی ایف کے جوان کو مستقبل میں بی جے پی کا انتخابی امیدوار بنایا جائے گا؟ کیا حکومت اس کی رہائی کی حمایت کرے گی؟ کیا اس کی رہائی پر اس کا بھی گل پوشی سے خیر مقدم کیا جائے گا؟ اگر یہ سب باتیں غلط ثابت ہوئیں، تو مجھے خوشی ہو گی۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔