چین میں گھریلو تشدد کے واقعات، حکومت کی شادی مہم پر تنقید
چینی حکومت کی جانب سے شادی کے فروغ کے لیے شروع کی گئی مہم سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بن رہی ہے۔ صارفین کا کہنا ہے کہ چین میں خواتین کو گھریلو تشدد سے ناکافی تحفظ حاصل ہے۔
چین میں دو خواتین کے قتل کے بعد حکومت کی جانب سے شادی کے فروغ کے لیے شروع کی گئی مہم اب سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بن رہی ہے۔ ان دو واقعات کی روشنی میں کئی صارفین کا کہنا ہے کہ چین میں خواتین کو گھریلو تشدد سے ناکافی تحفظ حاصل ہے۔
یہاں جن دو واقعات کا ذکر کیا جا رہا ہے ان میں سے ایک چین کے وسط میں واقع صوبہ ہینان میں پیش آیا تھا۔ پیر کے روز حکام نے وہاں ایک شخص کو اپنی بیوی کو ایک گھریلو جھگڑے کے دوران چھری کے وار سے قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ حکام کا کہنا تھا کہ 24 سالہ خاتون کا قتل گزشتہ ہفتے کیا گیا تھا۔
اسی ہفتے چین کے نیم خودمختار علاقے ہانگ کانگ میں 28 سالہ سوشلائٹ اور ماڈل ایبی چوئی کی لاش ملی۔ قاتل نے ایبی کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے تھے۔ حکام نے ایبی چوئی کو قتل کرنے کے شبے پر ان کے سابقہ شوہر اور دو سسرالی رشتہ داروں کو گرفتار کر لیا ہے۔
ان دو لرزہ خیز واقعات نے سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے، جہاں کئی صارفین حکومت کی جانب سے شادی اور خاندان بڑھانے کی حوصلہ افزائی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔
انہی میں سے ایک صارف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ویبو پر لکھا، "اگر آپ شادی نہیں کرتیں تو آپ کا بوائے فرینڈ آپ کو پیٹتا ہے۔ اگر آپ شادی کر لیتی ہیں تو آپ کا شوہر آپ کو مارتا ہے۔ اگر آپ طلاق یافتہ ہیں تو آپ کا سابقہ شوہر آپ پر تشدد کرتا ہے۔ اس دنیا کو کیا ہو گیا ہے؟" ایک اور صارف کی اس بارے میں رائے تھی، "شادی اور اولاد پیدا نہ کرنا بے شک سب سے زیادہ تحفظ (فراہم کرتا) ہے۔"
کچھ اور صارفین نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ 2021ء میں متعارف کیے گئے ایک قانون کے تحت طلاق کی درخواستیں دائر کیے جانے کہ بعد 30 دن سے پہلے ان پر باقاعدہ کارروائی کا آغاز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قانون نے بدسلوکی کا شکار شادی شدہ افراد کے لیے طلاق لینا مشکل بنا دیا ہے۔
اسی دوران سوشل میڈیا پر شہریوں اور پولیس کے درمیان تصادم کی کچھ ویڈیوز بھی گردش کرتی رہیں، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے وہ ہینان صوبے میں گزشتہ ہفتے قتل کی جانے والی خاتون کے شہر سے ہیں۔ لیکن روئٹرز اپنے طور پر ان ویڈیوز میں دیکھے جانے والے مقامات کی تصدیق نہیں کر پایا ہے۔
خواتین کے تحفظ کے لیے چین میں گزشتہ برس اکتوبر میں صنفی تفریق اور جنسی ہراسانی کے خلاف ایک قانون بھی پاس کیا گیا تھا۔ لیکن ساتھ ہی اس قانون میں خواتین کے لیے خاندانی اقدار کا احترام کرنے پر بھی زور دیا گیا تھا۔ یہ قانون سازی ایسے وقت عمل میں آئی تھی جب ایکٹوسٹس نے حکومت کے خواتین کے روایتی کردار کی فروغ کے بیانات پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ کچھ لوگ کا کہنا تھا کہ حکومت کی یہ بیان بازی خواتین کے حقوق کے لیے ایک دھچکا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔