چینی حکام خوفزدہ! چین نے کلب ہاؤس ایپ بند کیا لیکن عوام کے پاس توڑ موجود ہے
چین میں اظہار آزادی پر قدغنوں کی وجہ سے کلب ہاؤس ایپ تیزی سے مقبول ہو رہا تھا لیکن چینی حکام نے کچھ عرصے تک اس کی جاسوسی کرنے کے بعد اسے بند کر دیا۔
کلب ہاؤس ایپ حال ہی میں جرمنی اور بعض دیگر ملکوں میں بھی یکایک مقبول ہوا ہے۔ یہ سماعت یعنی آڈیو پر مبنی ایک قدرے نیا سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہے، جس کا آپ کسی ممبر کی دعوت پر ہی حصہ بن سکتے ہیں۔
چین میں اسے جوائن کرنے والے لوگوں نے نت نئے چیٹ روم بنائے اور ایسے سیاسی اور سماجی موضوعات پر کھل کر اظہار خیال کرنا شروع کیا، جن کے حوالے سے ویسے بظاہر بات کرنا مشکل ہے۔
ان چیٹ رومز میں لوگ ہانگ کانگ کی صورتحال پر بحث کر رہے تھے، کچھ تائیوان کے حالات پر فکر مند تھے تو کسی کو سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کے ساتھ زیادتیوں پر تشویش تھی۔ یہ تمام وہ موضوعات ہیں، جن پر چین کی حکومت عوامی سطح پر کوئی دوسری رائے برداشت نہیں کرتی اور ان معاملات پر آن لائن گفتگو بلاک کر دی جاتی ہے۔
چین میں ڈیجیٹل میڈیا پر حکومت کی سختی ہے اور باہر کی دنیا کے ایپس کے لیے حکومت نے ایک اپنی "گریٹ فائر وال" قائم کر رکھی ہے، جس کا مقصد سینسرشپ نافذ کرنا ہے۔
لیکن کلب ہاؤس ایپ کے ذریعے چین کے اندر اور باہر رہنے والے لوگوں کو رابطوں اور اظہار خیال کا ایک موقع ہاتھ آیا۔ ان آن لائن مکالموں میں مختلف نسل کے چینی شہریوں کو ایک دوسرے کو سننے اور سمجھنے کا کچھ موقع ملا۔ مثلا اکثریتی ہان آبادی کے لوگوں کو سنکیانگ کے مسلم ایغور لوگوں سے پہلی بار بات کر کے پتا چلا کہ بیجنگ سرکار وہاں کن کاموں میں مصروف ہے۔
بعض مبصرین کے مطابق اس طرح کی بات چیت سے لوگوں میں ایک دوسرے کو سمجھنے اور آپس میں مفاہمت کا جذبہ بیدار ہوتا نظر آیا۔ لیکن یہ سلسلہ زیادہ عرصہ نہیں چل سکا اور اس ہفتے پیر کی شب سے کلب ہاؤس ایپ کے چین میں موجود صارفین کو اس کے استعمال میں مشکلات آنا شروع ہو گئی۔
جلد واضح ہو گیا کہ حکومتی جاسوسوں نے وہاں گھس کر لوگوں کی بات چیت سنی اور حکام نے اسے بند کرنا شروع کر دیا۔ چین میں بعض لوگ سینسرشپ کی "گریٹ فائر وال" کا توڑ وی پی این کنیکشن کے ذریعے نکالتے ہیں تاکہ وہ باہر کی دنیا سے رابطے میں رہ سکیں۔ اور اس بار بھی کچھ لوگوں نے اسی کا سہارا لیا۔
کلب ہاؤس پر پابندی پر جہاں کئی حلقے غم و غصے کا اظہار کر رہے ہیں وہیں بعض تجزیہ نگار اسے ایک حوصلہ افزا پیش رفت بھی قرار دے رہے ہیں کہ ملک میں ایسے لوگوں کی تعداد کم نہیں، جو گھٹن کے اس ماحول سے نکلنے کے لیے بے تاب ہیں۔
اور کچھ ہو نہ ہو اس سے کم از کم ہانگ کانگ، تائیوان اور سنکیانگ کے لوگوں کو یہ پیغام گیا کہ بیجنگ حکومت کی متنازعہ پالیسیوں کے لیے تمام چینی ذمہ دار نہیں اور اگر ان کا بس چلے تو وہ بھی انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھانے کی خواہش رکھتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔