شام: انتہا پسندوں کے بچوں کو نکال لاؤ لیکن ماؤں کو چھوڑ دو؟
جیسے جیسے ’اسلامک اسٹیٹ‘ کی صفوں میں شامل ہونے والے غیر ملکی خاندانوں کے لیے شامی کیمپ زیادہ خطرناک ہوتے جا رہے ہیں، ویسے ویسے ان گھرانوں کے بچوں کو وہاں سے نکالنے کے مطالبات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
شامی کیمپوں میں موجود 'اسلامک اسٹیٹ‘ کے غیر ملکی جہادی خاندانوں کے بچوں کو وہاں سے جلد از جلد نکالنے کے مطالبات بڑھتے جا رہے ہیں۔ شام میں قائم ان کیمپوں میں جو خاندان آباد ہیں ان کے لیے خطرات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
یہاں تک کہا جا رہا ہے اگر ان کیمپوں میں رہنے والے بچوں کی مائیں وہیں رہنا چاہیں تب بھی ان کے بچوں کو وہاں سے نکال لیا جائے۔ اب یہ معاملہ متنازعہ بن گیا ہے کہ کیا ان بچوں کو ماؤں سے الگ کیا جانا درست عمل ہوگا؟
شامی کیمپ اور بچوں کی ہلاکتیں
رواں برس مئی میں ایک آٹھ سالہ لڑکا گندے نالے میں گر کر ہلاک ہو گیا۔ اسی سال نومبر میں دو لڑکیوں کی سربُریدہ لاشیں گٹر میں سے برآمد ہوئیں۔ ان میں سے ایک کی عمر 12 اور دوسری کی 15 سال تھی۔ مبینہ طور پر ان کم عمر لڑکیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کی گئی اور بعد ازاں ان کے سر قلم کر دیے گئے۔ انتہا پسندی کے رجحان پر تحقیق کرنے والے ایک ماہر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ شامکے الہلول کیمپ میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو کتے اور بلیوں کے سر کاٹنے کی تربیت دی جاتی رہی ہے۔ یہ دولت اسلامیہ یا داعش میں ان بچوں کی بھرتی کے لیے تربیتی مشق تھی۔
الہول کیمپ
شمال مشرقی شام میں واقع الہول کیمپ جسے اکثر ''دنیا کا سب سے خطرناک کیمپ‘‘ کہا جاتا ہے، 53 ہزار سے زیادہ افراد کا مسکن ہے۔ اگرچہ اس کیمپ کے تمام رہائشی اسلامک اسٹیٹ کی حمایت نہیں کرتے ہیں، لیکن یہ آئی ایس گروپ کی طرف سے اُس وقت یہاں پہنچے تھے جب اس سفاک انتہا پسند گروپ کو اس کے عراق اور شام کے مضبوط گڑھوں میں شکست دی جا رہی تھی۔
الہول کے کیمپ میں مقیم زیادہ تر افراد کا تعلق عراق یا شام سے ہے۔ تاہم اس کیمپ میں قریب دس سے گیارہ ہزار افراد ایسے ہیں جن کا تعلق امریکہ، کینیڈا، اور یورپی ممالک سے ۔ الہول کیمپ کی آبادی کی اکثریت خواتین اور بچوں پر مشتمل ہے۔ امدادی تنظیموں کے اندازوں کے مطابق کیمپ کی آبادی کا 60 تا 64 فیصد بچوں پر مشتمل ہے جو زیادہ تر 12 سال سے کم عمر کے ہیں۔
الہول کا سب سے پُرتشدد سال
الہول کیمپ میں گنجائش سے کہیں زیادہ انسان رہ رہے ہیں اور انہیں طبی دیکھ بھال کی کمی، روزمرہ کی ضروری اشیاءکی قلت اور تعلیم کی سہولیات نہ ہونے کے برابر جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ الہول کیمپ کے بچوں کی یہ ناگفتہ بہ صورتحال پہلے ہی تھی کہ گزشتہ سال یعنی 2021 ء کے دوران قتل اور پُرتشدد واقعات نے ان بچوں کے اذہان کو بُری طرح متاثر کیا ہے۔ یہاں محض اس ایک سال میں 126 افراد قتل ہوئے اور 41 بار قتل کی کوششیں ریکارڈ کی گئیں۔ اس طرح یہ سال اس کیمپ کا سب سے پُر تشدد سال قرار پایا۔ خوفناک امر یہ کہ امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ رواں سال پچھلے برس سے بھی بد تر رہا۔ مزید یہ کہ پڑوسی ملک ترکی کی طرف سے اس علاقے پر فضائی حملوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ اس علاقے کے کیمپوں کی حفاظت کُرد باشندے کرتے ہیں جنہیں ترکی اپنا دشمن سمجھتا ہے۔
کیا یہ سب کچھ جاننے کے بعد کبھی ماں باپ یہ برداشت کر سکتے ہیں کہ ان کے بچے اسی کسمپرسی کی صورتحال کا سامنا کرتے رہیں اور ایسے کسی علاقے میں پھنسے رہیں؟ انتہائی تلخ حقیقت یہ ہے کہ بہت سی ماؤں نے اپنے بچوں کے لیے اسی مستقبل کا خود انتخاب کر رکھا ہے۔ یعنی وہ اس کیمپ سے نکلنے کے لیے تیار نہیں۔
بچوں کی واپسی کا عمل
ہیومن رائٹس واچ نے نومبر کی ایک رپورٹ میں بتایا کہ 30 سے زائد ممالک، جن میں کئی یورپی ممالک بھی شامل ہیں، نے اپنے شہریوں کو الہول سے واپس بلایا ہے، اور مجموعی طور پر تقریباً 1500 بچوں کو وطن واپس لایا گیا ہے۔ ان ممالک کی حکومتوں نے چند خواتین کو وطن واپسی کی پیشکش کی تو انہوں نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ مثلاً جرمن دفتر خارجہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ آخری خاتون جو جرمنی واپس جانا چاہتی تھی نومبر میں اپنے چار بچوں کے ساتھ واپس لائی گئی تھی۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا، ''ہمارا اندازہ یہ ہے کہ اب بھی درجنوں جرمن مائیں اور بچے روج اور الہول کیمپوں میں موجود ہیں۔ ان میں سے چند خواتین جرمنی واپس نہیں آنا چاہتیں۔‘‘
ان کیمپوں میں رہنے کی وجوہات
ہیومن رائٹس واچ HRW میں بچوں کے حقوق کے لیے ایڈوکیسی ڈائریکٹر جو بیکر کے مطابق جو مائیں گھر نہیں جانا چاہتی تھیں، انہوں نے مختلف وجوہات کی بنا پر یہ فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا، ''کچھ ایسی ہیں جو کسی غیر مسلم ملک میں نہیں رہنا چاہتیں یا انہیں اپنے ساتھ امتیازی سلوک اور مظالم کا خوف ہے یا خود پر مقدمہ چلنے جیسے خدشات سے بچنا چاہتی ہیں۔ دیگر ایسی خواتین ہیں جن کے شوہر جیل میں ہو سکتے ہیں اور وہ ان کی رہائی کا انتظار کرنا چاہتی ہیں، یا ان کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتیں۔‘‘ جو بیکر کہتی ہیں کہ یہ ضروری نہیں کہ ان کے بچوں کے لیے یہ فیصلہ ان کے بہترین مفاد میں ہو۔
متنازعہ تجویز
چند ماہرین کا خیال ہے کہ جن ممالک سے تعلق رکھنے والے بچے اور مائیں الہول کیمپ میں ہیں ان کو چاہیے کہ بچوں کو وطن واپس لے آئیں اور اگر مائیں رکنا چاہتی ہیں تو انہیں وہاں چھوڑ دیں۔ امریکہ میں قائم انٹرنیشنل سینٹر فار دی اسٹڈی آف وائلنٹ ایکسٹریمزم، ICSVE کی ڈائریکٹر آنے اشپکہارڈ کہتی ہیں،''عام طور پر بچے کے بہترین مفاد میں یہ ہوتا ہے کہ اُسے اس کے خاندان کے افراد کے ساتھ رکھا جائے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،''آئی ایس کے خاندان کے افراد جو کیمپ میں رہ رہے ہیں، اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ وہ قانونی کارروائی سے خوفزدہ ہیں یا انہیں یقین ہے کہ آئی ایس آخرکار انہیں وہاں سے نکال دے گی۔ کیا ایسے خاندانوں کے ساتھ ان کے بچوں کو چھوڑ دینا ان بچوں کے مفاد میں ہو سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے ایک مثال دیتے ہوئے کہا کہ ''اگر آپ کسی بچے کے بارے میں جانتے ہیں جس کی عمر7 سال ہے اُس کی ماں کچھ بدسلوکی کر رہی ہے، اسے منشیات دے رہی ہے یا، مثال کے طور پر، اسے IS پروپیگنڈا فلموں کے سامنے بٹھا دیتی ہے۔ تو کیا ریاست کی ذمہ داری نہیں ہے کہ اس بچے کو ایسے گھر سے نکال لے؟
آنے اشپکہارڈ کا یہ بھی کہنا ہے کہ بچوں کو عام طور پر ان کے والدین کے ساتھ طویل مدت تک جیل میں نہیں رکھا جاتا۔ ان کے مطابق بچوں کو کیمپوں میں چھوڑ دینے کا مطلب ہے،''ہم قانونی طور پر الہول اور روج کو کیمپ سمجھتے ہیں،جہاں بچے حقیقت میں جیلوں میں ہیں۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔