کم سن بچے کان کنی جیسی مشقت پر مجبور

اقوام متحدہ کے سرکاری اندازوں کے مطابق دنیا میں 160 ملین بچے مشقت پر مجبور ہیں۔ ان میں سے تقریباً نصف جسمانی طور پر انتہائی محنت والے کام کرتے ہیں اور ان میں سے زیادہ ترکو کان کنی پر لگا دیا جاتا ہے۔

کم سن بچے کان کنی جیسی مشقت پر مجبور
کم سن بچے کان کنی جیسی مشقت پر مجبور
user

Dw

دنیا بھر میں کم عمر کے بچوں سے مشقت لینے یا انہیں بطور غلام رکھنے کا سلسلہ نیا نہیں تاہم مختلف معاشروں میں بچوں سے مشقت لینے کے نئے نئے طریقے اپنائے جا رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے بہبود اطفال کے ادارے کے اندازوں کے مطابق 160 ملین بچے جسمانی مشقت پر مجبور ہیں۔ امدادی تنظیموں کا کہنا ہے کہ کورونا کی وبا نے حالات کو مزید خراب کر دیا ہے۔ دیگر ماہرین کہتے ہیں کہ ''چائلڈ لیبر‘‘ ایک حقیقت ہے جس سے چشم پوشی کرنے سے مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ اس سے مسئلہ اور سنگین ہو سکتا ہے۔

اس سلسلے میں جنوبی امریکی ملک برازیل میں مویشیوں کے فارمز پر بچوں سے مشقت لینے اور انہیں بطور غلام رکھنے اور جنوبی امریکہ کے مغربی وسطی علاقے پر مشتمل ملک بولیویا میں بھی بچوں سے طرح طرح کی مزدوری کروائی جاتی ہے۔ کئی سالوں سے ان ممالک میں اس موضوع پر کھل کر بات چیت کی جا رہی ہے۔


مزدوری پر مجبور بچے

ایکواڈور کے دارالحکومت کیوٹو کے روزمرہ کا منظر: نو سال کی عمر کی بچیاں رات کے اندھیرے میں ڈسکو تھیکس کے سامنے کھڑی غیر ملکی سیاحوں کو سگریٹ فروخت کرتی ہیں اور چھوٹے لڑکے پیسے والے حضرات کے جوتے پالش کرتے ہیں۔

کولمبیا کے دار الحکومت بوگاٹا کے شب و روز: گیارہ سال کی کم عمر میں بچے، کئی کلو وزنی مکئی، چاول یا پھلیوں کی بوریاں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کر رہے ہوتے ہیں یعنی وہ مال برداری جیسی مشقت پر مجبور ہیں۔ پیرو میں بھی مزدور بچوں کی کچھ یہی صورتحال ہے۔ جنوبی امریکہ کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں جہاں بچوں کی صورتحال اس سے مختلف ہو۔ یعنی کوئی بھی ملک چائلڈ لیبر سے پاک نہیں ہے۔ بولیویا میں تاہم کچھ عرصے سے بچوں سے مشقت کروانے کا موضوع زیر بحث ہے کیونکہ یہاں کے سابق صدر، معروف سیاستدان اور ٹریڈ یونین آرگنائزر ایوو مورالس کی قیادت میں بائیں بازو کی حکومت نے 2014 ء میں ایک ایسا کام کیا جس کے بارے میں اس سے پہلے کبھی کسی نے سوچا بھی نہ تھا۔ انہوں نے بچوں کی مزدوری کو چند شرائط کے تحت قانونی حیثیت دے دی۔ انسانی حقوق کی ایک معروف وکیل بیانکا مینڈوزا کے بقول،'' یہ قانون غریب بچوں کی حقیقی زندگی کو مد نظر رکھتے ہوئے بنایا گیا تھا۔ قانونی سازی کرتے ہوئے اُن سے بھی مشورہ کیا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت صرف دس سال کی عمر کے بچوں کو ہی کام کی اجازت دی گئی تھی اور صرف اس شرط پر کہ ان کا پس منظر واقعی بہت ہی غریب ہو، ساتھ ہی ان کی اجرت مقرر کر دی گئی تھی۔‘‘


اس کے علاوہ بلیویا میں بچوں کو سماجی مراعات دی گئی تھیں اور ان کے لیے رات کا کام منع تھا ساتھ ہی ان پر کٹھن مشقت اور خطرناک کام جیسے کہ کان کنی وغیرہ یا گنے کی کاشت جیسے کاموں پر پابندی عائد تھی۔ بچوں کے حقوق کے لیے لڑنے والی وکیل بیانکا کی طرح بہت سے دیگر وکیلوں نے اس قانونی کو ترقی پسند قرار دیا۔

انٹر نیشنل لیبر آرگنائزیشن کا موقف

بولیویا میں بچوں کی محنت و مشقت سے متعلق اس قانون پر انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن آئی ایل او اور بہبود اطفال کے عالمی ادارے یونیسیف کی طرف سے سخت حیرانی کا اظہار کیا گیا۔ یہ تنظیمیں اور ادارے اس 'چائلڈ لیبر‘‘ کو بچوں کا استحصال تصور کرتے ہیں۔ 2018 ء میں بولیویا کی حکومت نے بین الاقوامی دباؤ کے تحت اس قانون کو واپس لے لیا۔ خاص طور سے اس قانونی مسودے میں شامل وہ اقتباسات حذف کر دیے گئے جو اقوام متحدہ کی طرف سے بچوں کے تحفظ کے لیے طے شدہ معیارات کی خلاف ورزی تھی۔


بچوں کی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں

وکیل بیانکا مینڈوزا تاہم اس بارے میں شکایت کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ بچوں کی صورتحال میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے۔ بولیویا کے دارالحکومت لاپاز میں اس کے برعکس کام کرنے والے بچوں کی تعداد جو پہلے آٹھ لاکھ پچاس ہزار تھی بہت تھوڑی کمی آئی۔ کمی کے بعد یہ سات لاکھ چالیس ہزار ہوئی تھی جس میں کورونا وبا کے دور میں دوبارہ سے اضافہ ہونا شروع ہو گیا۔

بیانکا مینڈوزا بتاتی ہیں کہ پانچ سال کی عمر کے بچے کینڈیز، کوکیز، ہیئر بینڈز اور دیگر اشیاء بیچتے نظر آتے ہیں۔ خاص طور پر رات کے اندھیرے میں کیونکہ اس پر دراصل پابندی تھی۔ اب کورونا وبا کے بعد سے بچوں کو دوبارہ کثرت سے کام کرتے دیکھا جا رہا ہے۔ بیانکا نے زور دے کر کہا،''یہ بچے تمام تر خطرات کے ساتھ کام کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔‘‘


اقوام متحدہ کے بچوں کی بہبود کے ادارے یونیسیف نے سرکاری طور پر تخمینہ لگایا ہے کہ ان دنوں بولیویا میں کام کرنے والے بچوں کی تعداد آٹھ لاکھ سے زیادہ ہے۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے طریقہ کار کے پر تنازعہ بھی جاری ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔