اختلاف سیاسی، حملے ذاتی, کیا عمران خان کا کوئی ٹیپ ہے؟
سیاسی اختلافات پر اپنے حریفوں کی ذاتی زندگی کو نشانہ بنانا پاکستانی سیاست میں نیا نہیں مگر اب اس کردارکشی کے لیے ’سیکس ٹیپ‘ تک کا استعمال دیکھنے میں آ رہا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے چند روز قبل اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ ان کی ذاتی زندگی کو نشانہ بنانے اور کردار کشی کرنے کے لیے ایک پوری مہم تیار کی جا رہی ہے۔ اس کے کچھ دیر بعد پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے ایک ویڈیو شیئر کی گئی، جس میں بتایا گیا کہ کس طرح ویڈیوز میں جدید ایڈیٹنگ تکنیک کے ذریعے کردار بدلے جا سکتے ہیں۔
اس دوران مختلف افراد کی جانب سے چہ مگوئیاں کی جاتی رہی ہیں کہ سابق وزیر اعظم عمران خان کی مبینہ طور پر خفیہ کیمروں سے ریکارڈ کردہ چند ویڈیو ٹیپس موجود ہیں۔ اسی تناظر میں سوشل میڈیا پر عمران خان کے حامیوں کی جانب سے ایسی ویڈیوز کے فیک ہونے اور دوسری طرف ان کے مخالفین کی جانب سے ان کے اصل ہونے کے دعوے کیے جاتے رہے ہیں، لیکن اس پوری بحث میں ایک بنیادی نکتہ غائب ہے کہ سیاسی اختلافات پر نجی زندگی پر حملے کیوں ضروری ہیں؟
اس سے قبل موجودہ اتحادی حکومت میں شامل جماعت مسلم لیگ نون کے رہنما اور سابق گورنر سندھ زبیر احمد سے جڑی ویڈیو ٹیپس بھی سامنے آئی تھیں۔
معروف پاکستانی ٹی وی اینکر اقرار الحسن اپنے ایک ٹویٹ میں لکھتے ہیں، ''عمران خان صاحب کی ممکنہ ویڈیو کبھی سامنے آئی تو اس سے قطع نظر کہ وہ اصلی ہے یا جعلی میں اُسے ابھی سے رد کرتا ہوں۔ (زبیر عمر صاحب کے معاملے میں بھی یہی کیا تھا۔) ہم سب ذاتی زندگی میں بہت گنہگار ہیں۔ لیڈر کے فیصلوں اور عوامی طرزِعمل پر بات ہونی چاہیے، بیڈرومز میں نہیں گھسنا چاہیے۔‘‘
ایک اور صحافی احمد نورانی بھی اس معاملے کے ایک اخلاقی پہلو پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں، ''ایک دوسرے پر ویڈیوز کے ذریعے گند اچھالنے کے اس گھٹیا کام میں یہ ضرور ذہن میں رکھیے گا کہ آپ ایک شخص کو گندہ کرنے کے لیے ایک دوسرے شخص کی زندگی بلکہ اس کی فیملی کی زندگی بھی خراب کر رہے ہوں گے۔ اگر آپ یہ گھٹیا کام کرنے پر تُلے ہوئے ہیں تو کم از کم دوسرے شخص کا چہرہ ہی چھپا دیں۔‘‘
سوشل میڈیا پر ڈیپ فیک اور الزام تراشیوں کے شور میں تاہم اس بحث کی بھی ضرورت ہے کہ آیا ویڈیوز کے ذریعے بلیک میلنگ، خود ملک کے جمہوری ڈھانچے کے لیے کس حد تک خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ سیاسی اختلافات پر نجی زندگی پر حملہ آور ہونا ایک خطرناک عمل ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس اہم نکتے پر جتنی گفتگو کی ضرورت ہے، اتنی ابھی پاکستانی سوشل میڈیا پر دکھائی دے نہیں رہی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔