کیا یوکرین کے دفاع کی جنگ میں غیر ملکیوں کی شمولیت جائز ہے؟

اندازوں کے مطابق کئی ہزار رضاکار یوکرین میں روس کی فوج کشی کے خلاف جنگ میں عملی طور پر شریک ہونا چاہتے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ ایسا کرنے والوں کو اپنے ملک میں قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

کیا یوکرین کے دفاع کی جنگ میں غیر ملکیوں کی شمولیت جائز ہے؟
کیا یوکرین کے دفاع کی جنگ میں غیر ملکیوں کی شمولیت جائز ہے؟
user

Dw

مختلف میڈیا رپورٹس کے مطابق کینیڈا، جارجیا، بھارت، جاپان، برطانیہ اور امریکا سے بے شمار شہریوں نے یوکرین میں روسی جنگ کے خلاف رضاکارانہ بنیادوں پر شمولیت کا اظہار کیا ہے۔

گزشتہ دنوں میں جرمنی کے بعض میڈیا نے رپورٹ کیا تھا کہ ان کے ملک سے ایک ہزار کے قریب افراد یوکرین پہنچ چکے ہیں لیکن جرمن وزارتِ داخلہ نے اس پر لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔


یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی کی جانب سے بھی اس مناسبت سے ٹویٹر پر ایک اپیل جاری کی جا چکی ہے۔ اس تناظر میں ایسے رضاکاروں کو 'انٹرنیشنل لیجین‘ کا نام دیا گیا ہے۔

غیر ملکی جنگ میں رضاکارانہ شمولیت کا امریکی قانون

اس تناظر میں امریکی قانون اپنے شہریوں کو کسی اور ملک کی فوج میں شامل ہونے سے نہیں روکتا۔ یہ بات امریکی وزارتِ خارجہ کی ویب سائٹ میں بیان کی گئی ہے۔ ایسے افراد کو یہ آپشن دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی امریکی شہریت چھوڑ سکتے ہیں۔ دوسری جانب امریکی سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ کسی بھی دوسرے ملک کی فوج میں نوکری کرنے سے امریکی شہریت ختم نہیں کی جا سکتی۔


واشنگٹن ڈی سی میں قائم امریکن یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ میلیٹ کا کہنا ہے کہ گیمبیا میں سن 2014 کی بغاوت میں شریک امریکی افراد کو روس کے خلاف لڑائی میں حصہ لینے پر سزاؤں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ میلیٹ کا مزید کہنا ہے کہ داخلی دہشت گردی سے دور رہتے ہوئے اگر کوئی امریکی یوکرین میں دفاعی جنگ میں رضاکارانہ طور پر شریک ہوتا ہے تو اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا بظاہر امکان بہت کم ہے۔

آسٹریلوی، برطانوی اور بھارتی جنگی رضاکار

برطانیہ کہ جو شہری بھی یوکرین جنگ میں شرکت کے لیے جائیں گے، انہیں واپسی پر تادیبی کارروائی کا سامنا ہو گا۔ اس مناسبت سے برطانوی حکومت نے اپنی ایک ویب سائٹ پر تفصیلات بیان کر رکھی ہیں۔


برطانوی حکومت نے سن 1870 سے اپنے ملک کے شہریوں کو کسی بھی ایسی غیر ملکی جنگ میں شریک ہونے کی ممانعت کر رکھی ہے، جہاں کا ملک برطانیہ کے ساتھ امن کی حالت میں ہے۔ ابتدا میں برطانوی وزیر خارجہ نے ایسے رضاکاروں کی حمایت میں بیان دیا تھا جو یوکرین جانا چاہتے ہیں اور پھر بعد میں اس مناسبت سے انہوں نے اپنے شہریوں کو ایسا سفر اختیار کرنے سے روک دیا تھا۔

آسٹریلوی وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے بھی اپنے ملک کے شہریوں پر واضح کیا ہے کہ انہیں یوکرین کی جنگ میں حصہ لینے کی ضرورت نہیں ہے۔


اس مناسبت سے بھارت کی وزارتِ داخلہ نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا ہے اور نہ ہی اپنے ملک کے شہریوں کی یوکرینی جنگ میں شمولیت کی قانونی حیثیت پر کوئی وضاحت دی ہے۔ بھارتی وزارتِ داخلہ نے یہ ضرور کہا ہے کہ دہلی ہائی کورٹ ایک فیصلے میں کہہ چکی ہے کہ کسی اور ملک میں جنگی سرگرمیوں میں بھارتی شہریوں کی شمولیت بھارتی حکومت کا دہشت گردی کو فروغ دینے کے برابر ہو گا۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔