کیا یورپی یونین میں خوراک کی قلت پیدا ہو سکتی ہے؟

جیسے جیسے خوراک کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں، یورپی یونین یورپ اور دنیا بھر میں خوراک کی فراہمی کو محفوظ بنانے پر غور کر رہی ہے۔ کیا مستقبل میں امیر یونین کو بھی خوراک کے عدم تحفظ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے؟

کیا یورپی یونین میں خوراک کی قلت پیدا ہو سکتی ہے؟
کیا یورپی یونین میں خوراک کی قلت پیدا ہو سکتی ہے؟
user

Dw

یوکرین میں جاری جنگ کی حدت نہ صرف یورپ بلکہ دنیا بھر کے گھرانوں میں محسوس کی جا رہی ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے عام کھانے کی اشیاء جیسے کہ گندم، سبزیوں کے تیل اور چینی کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔

اعدادو شمار کے مطابق بحیرہ اسود کا خطہ ایک عالمی بریڈ باسکٹ ہے۔ گندم کی عالمی برآمدات میں روس اور یوکرین کا حصہ 29 فیصد ہے جبکہ یہ دونوں ممالک مل کر دنیا میں مکئی کی 19 فیصد ضروریات کو پورا کرتے ہیں اور سورج مکھی کے تیل کی عالمی برآمدات میں ان کا حصہ 78 فیصد بنتا ہے۔ یوکرین جنگ نے خوراک کی پیداوار کو متاثر کیا ہے اور اشیائے خورو نوش کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔


اقوام متحدہ کی فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ اس سال مارچ میں ہی خوراک کی عالمی قیمتوں کا انڈیکس اب تک کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا تھا، جو کہ 1990ء میں ایف اے او کے قیام کے بعد سب سے بلند شرح ہے۔ غریب ممالک کو چھوڑیں یورپی یونین کے اندر فروری میں خوراک، شراب اور تمباکو کی قیمتوں میں 4.1 فیصد اضافہ ہوا۔ اس سے قبل جنوری میں بھی 3.5 فیصد ایسا ہی اضافہ نوٹ کیا گیا تھا۔

'برڈ لائف یورپ اینڈ سینٹرل ایشیا' فطرت کے تحفظ پر توجہ دینے والی ایک تنظیم ہے۔ اس سے وابستہ ماہر زراعت ایریل برنر وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں، ''یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ غذائی تحفظ کو حقیقی خطرہ غریب ممالک میں ہے، خاص طور پر ان ممالک میں، جو یوکرائن سے درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتے ہیں، جیسے کہ مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقی ممالک۔''


انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یورپ میں یہ افراط زر کا مسئلہ ہے۔'' دوسرے لفظوں میں یورپ میں خوراک کی قلت تو پیدا نہیں ہو گی لیکن مہنگائی کافی بڑھ جائے گی۔ ان کا مزید کہنا تھا، ''اناج، سورج مکھی کا تیل اور مٹھی بھر دیگر اجناس شاید سپلائی کے جھٹکے کا تجربہ کریں گی۔ لیکن یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ مستقبل قریب کے بارے میں ہے۔''

روس اور یوکرین کے ساتھ یورپی یونین کی خوراک کی تجارت

یورپی یونین روس اور یوکرین دونوں کے ساتھ ہی مختلف زرعی خوراک کی مصنوعات کا اہم تجارتی شراکت دار رہا ہے۔ یورپی پارلیمنٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق جنگ سے پہلے یورپی یونین زرعی خوراک کی اپنی مجموعی برآمدات کا 3.7 فیصد روس کو برآمد کرتی تھی اور یورپی یونین میں زرعی درآمدات کا تقریباً 1.4فیصد حصہ روس سے آتا تھا۔


دوسری جانب یورپی یونین یوکرین سے اپنی ضروریات کا 36 فیصد اناج اور 16 فیصد تیل کے بیج درآمد کرتی ہے۔ بدلے میں یورپی یونین نے 2021ء میں یوکرین کو تین بلین یورو سے زیادہ کی زرعی مصنوعات برآمد کیں۔

تاہم یورپی کمیشن کا کہنا ہے کہ یورپی بلاک یوکرین میں جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے خوراک کے عدم استحکام کو آسانی سے برداشت کر سکتا ہے۔ یورپی کمیشن نے ایک بیان میں کہا ہے، ''یورپی یونین خوراک کے معاملے میں کافی حد تک خود کفیل ہے اور یونین میں زرعی خوراک کے اضافی سرپلس موجود ہیں۔ توقع ہے کہ یورپی یونین کی سنگل مارکیٹ اس جھٹکے کو جذب کرنے کی اپنی صلاحیت کو ثابت کرے گی۔''


لیکن کسان اور عوام پریشان

لیکن اس کے باوجود یورپی کسان اور عوام پریشان ہیں۔ روس میں جنگ نے کھادوں کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیا ہے، جس سے خوراک کی سپلائی کی لاگت مزید بڑھ گئی ہے اور اس وجہ سے بہت سے یورپی ممالک میں کسان ناراض ہیں۔

یونان اور فرانس میں کسانوں نے پہلے ہی احتجاجی مظاہرے شروع کر رکھے ہیں۔ ان کا یورپی یونین سے مطالبہ ہے کہ وہ کھاد کی بلند قیمتوں سے نمٹنے میں ان کی مدد کرے۔ بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ اس صورتحال سے خوراک کی پیداوار پر اثر پڑے گا۔ کسانوں میں بڑھتی ہوئی بے چینی کو دیکھتے ہوئے یورپی کمیشن نے اعلان کیا ہے کہ کسانوں کو ایندھن اور کھاد کی مد میں مزید سبسڈی دی جائے گی۔


یورپی یونین کی نئی 'فوڈ ڈپلومیسی'

یورپی کمیشن کے مطابق اس بلاک کو کسی بھی حوالے سے فوڈ سکیورٹی کا خطرہ لاحق نہیں ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ یورپی یونین اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر مشرق وسطیٰ اور افریقی ممالک میں بھی فوڈ سپلائی کو یقینی بنانا چاہتی ہے۔ اس حوالے سے ایک ہفتہ قبل ہی یورپی یونین نے شمالی افریقہ، بلقان اور مشرق وسطیٰ میں 'فوڈ ڈپلومیسی' شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ یورپی یونین اس طرح گندم اور کھاد کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے ساتھ ساتھ اس روسی موقف سے بھی نمٹنا چاہتی ہے، جس کے مطابق عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں اضافہ مغربی پابندیوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

یورپی یونین کے اعلیٰ سفارت کار جوزپ بوریل کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا تھا کہ روس یوکرین کے لیے بھی زرعی مصنوعات کی برآمد مشکل بنا رہا ہے۔ ان کے مطابق روس کی طرف سے بندرگاہوں اور گندم کے گوداموں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ روس نے خود بھی گندم کی برآمد کو محدود کر دیا ہے جبکہ وہ یوکرین کے متعدد ایندھن کے ذخائر کو تباہ کر چکا ہے۔


یورپی حکام کا کہنا ہے کہ یوکرینی گندم کے گودام بھرے پڑے ہیں لیکن تیل کی کمی کی وجہ سے گندم ٹرانسپورٹ نہیں کی جا سکتی۔ یورپی یونین کی کوشش ہے کہ خوراک کو براستہ پولینڈ درآمد کیا جائے اور یوکرینی کسانوں تک پٹرول پہنچایا جائے۔

یورپی یونین متاثرہ ممالک کو مالی امداد بھی فراہم کر رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے ہی شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے لیے 225 ملین یورو امداد کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس کا تقریباً نصف حصہ مصر، لبنان، اردن، تیونس اور مراکش کو بھیج دیا جائے گا۔ اسی طرح فلسطینی اتھارٹی کو 15 سے 25 ملین یورو تک کی ہنگامی امداد فراہم کی جائے گی۔


برسلز حکام کے مطابق مغربی بلقان کے ممالک کو زرعی سپورٹ میں مزید 300 ملین یورو فراہم کیے جائیں گے۔ اس وقت سربیا کے حوالے سے یورپی اہلکار پریشان ہیں کیوں کہ وہاں روسی کمیونیکیشن کافی زیادہ ہے اور رائے یورپی یونین کے خلاف ہو رہی ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔