کیا برلن یوکرینی مہاجرین کا بوجھ سہہ سکے گا؟
یوکرین جنگ سے فرار ہوکر جرمنی پہنچنے والے زیادہ تر مہاجرین کا پہلا اسٹاپ برلن کا ریلوے اسٹیشن ہے، جہاں کے مناظر دہلا دینے والے ہیں۔ حکومت سمیت دارالحکومت کے باسی ان مہاجرین کو ہر مدد فراہم کررہے ہیں۔
روسی جارحیت کی وجہ سے یوکرین سے مہاجرت اختیار کر کے برلن پہنچنے والے افراد کی صورتحال انتہائی ابتر ہے۔ ٹرین اسٹیشن پر یوکرینی خاتون زاہانا این نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ تین دن قبل یوکرین سے فرار ہوئیں اور براستہ پولینڈ جرمنی پہنچیں۔
چالیس برس کی زاہانا کے بقول، ''ہمارا ملک ایک بڑے سانحے کا شکار ہے۔ بہت سے لوگ مر جائیں گے۔‘‘ انتہائی صدمے کا شکار اس خاتون کا مزید کہنا تھا کہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ جنگ کتنی طویل ہو گی۔ زاہانا کے کئی رشتہ دار ابھی تک یوکرین میں ہی ہیں اور وہ ان کے لیے پریشان ہیں۔ زاہانا جیسی کئی خواتین برلن کے ریلوے اسٹیشن پر اس مخمصے کا شکار ہیں کہ اب آگے کیا ہو گا۔ یہ لوگ نہیں جانتے کہ وہ کب واپس اپنے ملک جا سکیں گے۔
برلن میں عارضی شیلٹر ہاؤسز کا قیام
ہر روز کم از کم پندرہ ہزار یوکرینی مہاجرین برلن پہنچ رہے ہیں۔ شہری انتظامیہ کے مطابق اسے ان مہاجرین کو بہتر سہولیات فراہم کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ برلن کی میئر فرانسیزکا گیفی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اندیشہ ہے کہ جلد ہی شہر اپنی حد کو پہنچ جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ یوکرینی مہاجرین کو عارضی شیلٹر ہاوسز منتقل کیا جا رہا ہے۔
برلن کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ دیگر جرمن صوبوں میں بھی یوکرینی مہاجرین کو پناہ دینے کا انتظامات کرنے چاہییں تاکہ دارالحکومت پر زیادہ دباؤ نہ پڑے۔ گیفی نے کہا کہ وہ خوش ہیں کہ برلن کے باسی بھی ان مہاجرین کو مدد فراہم کرنے کی خاطر بھرپور تعاون کر رہے ہیں۔
ادھر جرمن چانسلر اولاف شولس نے بھی شہریوں کی طرف سے فراخدلی کا مظاہرہ کرنے پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جرمن عوام یوکرین کے شہریوں کے ساتھ ہے۔
مہاجرین کے ساتھ یک جہتی
برلن پہنچنے والے یوکرینی مہاجرین کو سب سے پہلے کپڑے، خوراک اور معلومات فراہم کی جا رہی ہے۔ برلن کی رہائشی روسی نژاد ایریکا بطور رضا کار ان مہاجرین کے لیے اپنا وقت مختص کیے ہوئے ہیں۔ وہ ہر روز پانچ گھنٹے ان مہاجرین کو دے رہی ہیں۔
ایرکا نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ برلن پہننچے والے زیادہ تر مہاجرین انتہائی تھکے ہوئے ہیں، ''کئی لوگ شدید ذہنی صدمے سے دوچار ہیں، انہیں معلومات چاہییں کہ اب ان کا مستقبل کیا ہو گا۔ اگرچہ ہمیں نہیں معلوم کہ آگے کیا ہو گا لیکن جتنا ممکن ہو سکے، ہمیں انہیں معلومات فراہم کرنا چاہییں۔‘‘
کئی ادارے بھی ان مہاجرین کو مدد فراہم کر رہے ہیں۔ ان میں برلن سٹی مشن نامی ایک مسیحی تنظیم بھی شامل ہے۔ اس ادارے کی ترجمان باربرا بروئر کے مطابق جس طرح برلن کے باسی یوکرینی مہاجرین کی مدد کے لیے کوششیں کر رہے ہیں، اس پر انہیں فخر ہے۔
مردوں کو ملک چھوڑنے کی اجازت نہیں
یوکرین پر روسی حملے کے بعد کییف حکومت نے ملک میں ہنگامی حالات کا نفاذ کر دیا تھا۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا تھا کہ اٹھارہ تا ساٹھ برس کے عمر کے مرد ملک نہیں چھوڑیں گے بلکہ وہ روس کے ساتھ جنگ میں شامل ہوں گے۔ تاہم اس کے باوجود کچھ مرد ملک چھوڑ چکے ہیں۔
برلن کے ریلوے اسٹیشن پر روسلان نامی ایک یوکرینی مرد نے بتایا کہ روسی فوج شہروں کو تباہ کر رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یوکرین کا شہری ڈھانچہ تباہ کر دیا گیا اور اب مشکل ہے کہ وہ واپس جا سکیں۔ ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ لیکن وہ یوکرین میں موجود اپنے رشتہ داروں کی فکر میں ہیں۔
روسلان سلوواکیہ کے راستے جرمنی پہنچے ہیں۔ ان کے کزن ولاد امریکہ میں مقیم ہیں، جو خصوصی طور پر جرمنی پہنچے ہیں تاکہ بطور رضا کار وہ یوکرینی مہاجرین کی مدد میں ساتھ دے سکیں۔
ولاد نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا کہ ان کے دو کزن یوکرین میں پھسنے ہوئے ہیں جبکہ ان کے رشتہ دار جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ ولاد کے بقول یوکرین سے فرار ہونے والے اپنے پیاروں کی فکر میں ہیں اور وہ نہیں جانتے کہ ان کا مستقبل کیا ہو گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔