ذات پات: کیلفورنیا سینیٹ کے فیصلے سے ہندوتوا تنظیموں کو دھچکا
کیلفورنیا کی سینیٹ جوڈیشیری کمیٹی کی ذات پات کی بنیاد پر تفریق کے خلاف بل کی متفقہ تائید کے بعد اس کا قانون شکل اختیار کرنا طے ہے۔ ہندوتوا تنظیموں کے لیے اسے بڑا دھچکا کہا جارہا ہے۔
امریکہ کی مغربی ریاست کیلفورنیا کی سینیٹ جوڈیشیری کمیٹی نے ذات پات کی بنیاد پر تفریق کے متعلق بل کی منگل کے روز اتفاق رائے سے توثیق کردی۔ کیلفورنیا کی پہلی مسلم اور افغان سینیٹر عائشہ وہاب نے یہ بل پیش کیا اور کمیٹی کے تمام آٹھوں اراکین نے اس کی حمایت میں ووٹ دیا۔
اس بل کو ہندوتوا کی علمبردار تنظیموں کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا جارہا ہے کیونکہ کئی انتہائی بااثر امریکی ہندو تنظیمیں اس بل کی مخالفت کر رہی تھیں۔ تاہم امریکہ میں ذات پات کی وجہ سے زیادتیوں کا شکار ہونے والے افراد اسے اپنی فتح قرار دے رہے ہیں۔
نیپال میں پیدا ہوئے سماجی کارکن پریم پریار کو وہ واقعہ یاد ہے جب کیلفورنیا کے بے ایریا میں پہلی مرتبہ انہیں ان کی ذات یاد دلائی گئی۔ وہ بتاتے ہیں،"دوسرے لوگوں کی طرح میں بھی ہاتھ میں پلیٹ اور چمچ لیے ٹیبل کی طرف بڑھ رہا تھا لیکن جب کھانا لینے کی میری باری آئی تومیزبان نے کہا، ' پریم کیا تم رکو گے؟ میں تمہارے لیے کھانا لاتا ہوں۔ میں نے کہا ٹھیک ہے، میں آپ کا کھانا گندا نہیں کروں گا۔"
جنوبی ایشیا میں ذات پات پر مبنی سماجی ڈھانچہ ہزاروں سال پرانا ہے۔ اس میں صفائی ستھرائی اور گندگی سے متعلق ضابطے بھی ہیں۔ اور ان کی بنیاد پر کچھ طبقات کو "اچھوت"قرار دے دیا گیا۔ یہ لوگ خودکو اس ڈھانچے کی سب سے نچلی سیڑھی پر دیکھتے ہیں۔
ذات پات پر مبنی ان گروپوں کو بعض دیگر گروپوں کے ساتھ ملا کر "دلت"کہا جاتا ہے۔ کھانا بھی ذات پرمبنی پاکی و صفائی کے پیمانوں میں سے ایک ہے اور اس حوالے سے ہزاروں برسوں سے چلے آرہے ضابطوں کے مطابق دلت جس کھانے کو چھو لیں وہ "گندا" ہوجاتا ہے۔ یعنی غیردلت اسے نہیں کھا سکتے۔ سن 2015میں کیلفورنیا آنے پر پیریار کو یہاں بھی اس کا تجربہ ہوا۔
پیریار ڈیموکریٹک سینیٹر عائشہ وہاب کی حمایت کرتے ہیں، جو کیلفورنیا میں ذات پر مبنی تفریق کو ختم کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔ مارچ میں وہاب نے ایک بل پیش کیا جسے منگل کے روز سینیٹ کی جوڈیشیئری کمیٹی نے پاس کردیا۔ اس بل کے قانونی شکل اختیار کرلینے کے بعد کیلفورنیا میں ذات پات کی بنیاد پر تفریق کا خاتمہ ہوجائے گا۔
سیاٹیل اورکیلفورنیا ٹیکنالوجی کا مرکز ہیں، جہاں بڑی تعداد میں جنوب ایشیائی افراد بڑی ٹیک کمپنیوں میں ملازمت کرتے ہیں۔ انہیں میں سے ایک سسکو پر ایک کیس چلا جب اس کے ایک ملازم نے اپنے دو سپروائزروں پر ذات کی بنیاد پر تفریق کرنے کا الزام لگایا۔ اس مقدمے نے امریکہ میں ذات پات کی بنیاد پر مبنی تجربات پر ایک بحث چھیڑ دی اور ایکوالٹی لیب نامی ایک سماجی تنظیم نے اسے اپنا موضوع بنایا۔
سن 2018 میں ایکوالٹی لیب نے امریکہ میں ذات پات کی بنیاد پر ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی۔ 1500افرا د سے انٹرویو پر مبنی اس رپورٹ میں حصہ لینے 60 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ دلتوں کو ذات پات کی بنیاد پر توہین آمیز مذاق اور طنز برداشت کرنے پڑتے ہیں۔
سن 2021میں کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تقریباً نصف بھارتی امریکی ہندو کسی ذات کے ساتھ اپنی شناخت جوڑتے ہیں۔" بہت سے تارکین وطن اپنے ساتھ اپنی ذات پات کی شناخت لے کر آتے ہیں جن کی جڑیں ان کے آبائی وطن سے جڑی ہوتی ہیں حالانکہ بہت سے لوگوں نے امریکی شناخت کے لیے اسے ترک بھی کر دیا ہے۔ لیکن اس کے باوجود تفریق کرنے والی طاقتوں اور ان کی شناخت سے وابستہ سوالات سے انہیں نجات نہیں مل سکی ہے۔" جب پریم پریار نے اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعے کے بارے میں ایک دلت ساتھی کو بتایا تو ان کا کہنا تھا،"پریم جی آپ نئے ہیں، میں یہاں گزشتہ دس برس سے ہوں اورمیں نے کئی مرتبہ اسے جھیلا ہے۔"
سری نواس ایمرسن کالج میں اینتھروپولوجی کی پروفیسر اور ہارورڈ کی ڈیوینیٹی اسکول کی فیلو ہیں۔ وہ امریکہ میں ذات پات کی بنیاد پر تفریق کو ہندو کلچر کے مقامی حصے کے طورپر دیکھتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں،" ہم اسے اپنے ساتھ لے کر آتے ہیں۔ اس نئی جگہ، امریکہ میں، جہاں ہم مساوات کی لیباریٹری میں تجربہ کررہے ہیں، ہم اس کو اپنے کلچر کے طورپر دیکھتے ہیں۔"
سر ی نواس کا کہنا ہے کہ بھارت میں، جہاں اس کی شروعات ہوئی، ذات پات کے اثرات کا کبھی پورے طورپر جائزہ نہیں لیا گیا، ایسے میں امریکہ میں یہ کام اور زیادہ مشکل ہوگا۔
حالانکہ بل کی مخالفت کرنے والے موجودہ امریکی قوانین کا ذکر کرتے ہیں جن میں خاندان کی بنیاد پر تفریق کی بات موجود ہے اور انہیں لگتا ہے کہ یہ ذات پات کی بنیاد پر تفریق کے لیے بھی کافی ہے۔
لیکن عائشہ وہاب کا کہنا ہے کہ اس بل میں سب سے بڑی چیز تحفظ ہے۔ اس سے لوگوں کو محسوس ہوگا کہ ان کے پاس کچھ ہے اور اگر ان کے خلاف ذات پات کی بنیاد پر کوئی کارروائی ہوتی ہے تو وہ اس کے خلاف اقدامات کرسکتے ہیں۔ وہاب کا خیال ہے کہ کیلفورنیا میں اس کے قانونی شکل اختیار کرلینے کے بعد امریکہ کے دیگر ریاستوں پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔