کیا آپ کے بچے بھی آن لائن ہوتے ہیں؟ برطانیہ میں ٹک ٹاک پر ’جرمانہ‘
آج کل بچوں کی انٹرنیٹ تک رسائی ایک معمولی بات بن چکی ہے۔ والدین اپنا بوجھ کم کرنے کی خاطر بچوں کو اسمارٹ ڈيوائسز پکڑا دیتے ہیں۔ حالانکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ ایک خطرناک بات بھی ہو سکتی ہے۔
بچوں کے پرائیوسی قوانین کے احترام میں ناکامی کے نتیجے میں ویڈیو شیئرنگ آن لائن پلیٹ فارم ٹک ٹاک کو برطانیہ میں 27 ملین پاؤنڈ (انتیس ملین امریکی ڈالر) کا جرمانہ ہو سکتا ہے۔
ٹک ٹاک ویڈیو شیئرنگ کا ایک ایسا مقبول پلیٹ فارم ہے، جو پاکستان میں بھی بہت مقبول ہے۔ بالغ افراد کے ساتھ ساتھ بچے بھی بلا روک ٹوک ٹک ٹاک کو استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔
راولپنڈی کی رہائشی سعدیہ بشیر کے بقول انٹرنیٹ سکیورٹی کے حوالے سے وہ ہمیشہ ہی پریشان رہتی ہیں۔ تین بچوں کی ماں یہ تسلیم کرتی ہیں کہ ان کے ٹین ایجر بچے انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہیں اور سماجی رابطوں کے دیگر پلیٹ فارمز کی طرح ٹک ٹاک کے بھی رسیا ہیں۔
خطرہ کمپنی سے نہیں بلکہ استعمال کرنے والوں سے
سعدیہ نے بتایا کہ اسمارٹ فون کے دور میں انٹرنیٹ پر کنٹرول آسان نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ڈیٹا پروٹیکشن کے حوالے سے اتنی فکر مند نہیں بلکہ آن لائن آنے والے افراد سے ڈرتی ہیں کہ کہیں وہ ان کے بچوں کو کسی طرح تنگ نہ کرنے لگیں۔
وہ فحش مواد، بلیک میلنگ اور ممکنہ حملوں سے زیادہ خوفزدہ ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کو ٹک ٹاک یا کسی دوسری کمپنی سے کوئی خطرہ نہیں کہ وہ ان کے کوائف کا غط استعمال کر سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا، ''میرے ليے زيادہ بڑے مسائل یہاں اطراف میں موجود لوگ اور ممکنہ آن لائن زیادتی ہيں۔‘‘
برطانیہ میں ڈیٹا پروٹیکشن زیادہ بڑا مسئلہ
برطانیہ میں انفارمیشن کمشنر آفس کی طرف سے ٹک ٹاک کو ایک قانونی نوٹس جاری کیا گیا ہے، جس میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ سوشل میڈٰیا کے اس پلیٹ فارم نے غالباً ڈیٹا پروٹیکشن قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔
الزام عائد کیا گیا ہے کہ ٹک ٹاک نے بچوں کی پرائیویسی کے قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مشتبہ طور پر صارفین کے نجی کوائف کے تحفظ سے متعلق قوانین کو بھی توڑا۔ تاہم ابھی اس حوالے سے صرف شکوک ہی ظاہر کیے گئے ہیں۔
اس نوٹس میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر ویڈیو شیئرنگ پلیٹ فارم ٹک ٹاک نے تیرہ برس سے کم عمر کے صارفین کے کوائف کو ان کے والدین کی مناسب اجازت کے بغیر پراسیس کیا ہے تو ٹک ٹاک کو جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔
شک ہے کہ ٹک ٹاک نے بچوں کے 'اسپیشل کیٹیگری ڈیٹا‘ کو پراسیس کیا ہے، جس میں صارفین کے رنگ، نسل، سیاسی نظریات، مذہبی عقائد اور جنسی میلانات و رحجانات کے حوالے سے معلومات محفوظ کی جاتی ہیں۔
مصدقہ طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا
برطانوی انفارمیشن کمشنر آفس کی طرف سے اس شک کا اظہار بھی کیا گیا ہے کہ ٹک ٹاک اپنے صارفین کو اس پلیٹ فارم کے استعمال اور قواعد و ضوابط کی معلومات کے استعمال سے متعلق شفاف اور آسان زبان میں ہدایات فراہم کرنے میں بھی ناکام رہا ہے۔
اس نوٹس میں سن 2018 تا 2020ء کے وقت کا حوالہ دیا گیا ہے۔ برطانوی انفارمیشن کمشنر جان ایڈورڈ نے میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ ٹک ٹاک نے غالباً اس عرصے کے دوران اپنے صارفین کو مناسب انداز میں ڈیٹا پروٹیکش سے متعلق معلومات فراہم نہیں کیں۔
برطانوی انفارمیشن کمشنر آفس نے ٹک ٹاک سے کہا ہے کہ وہ ان الزامات کا جواب دے۔ مزید کہا گیا ہے کہ یہ ادارہ ابھی ان الزامات کے حوالے سے یقینی نہیں ہے تاہم معلومات کے تجزیے سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ٹک ٹاک شايد ان قوانین کی خلاف وزری کا مرتکب ہوا ہے۔
آن لائن سیفٹی ضرروی کیوں؟
برطانوی حکومت کی کوشش ہے کہ ایک ایسا 'آن لان سیفٹی بل‘ منظور کر لیا جائے، جس سے بچے خطرناک مواد تک رسائی سے محفوظ رہ سکیں۔ حالیہ عرصے میں مغربی ممالک میں اس حوالے سے قانون سازی کی کوششوں میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ قانون سازی اپنی جگہ لیکن انٹرنیٹ کے استعمال کے حوالے سے بالخصوص والدین کو اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھنا چاہیے۔ بالخصوص سولہ سال سے کم عمر بچوں کے لیے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور گیمز کا استعمال کسی خطرناک صورتحال کا پیش خیمہ بھی ہو سکتا ہے۔
سعدیہ کے مطابق پاکستانی حکومت کو بھی انٹرنیٹ کے استعمال سے متعلق قوانین کو مؤثر بنانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بالخصوص بچوں کے حوالے سے اس کا زیادہ خیال رکھنا چاہیے، ''ہمارے ہاں تو والدین کو پتہ بھی نہیں ہوتا کہ انٹرنیٹ کی دنیا میں کیا چل رہا ہے اور بچے کس طرح متاثر ہو سکتے ہیں۔‘‘
حالیہ عرصے میں پاکستان میں بھی انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد میں بڑا اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ جنوری سن دو ہزار بائیس کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ یوزرز کی تعداد 82.90 ملین ہو چکی ہے۔ سن دو ہزار اکیس اور بائیس کے دوران انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد میں بائیس ملین اضافہ ہوا ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔