عرب ممالک میں پاکستانی گداگروں اور جیب کتروں کے چرچے
پاکستانی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار کے مطابق کچھ عرب ممالک میں گرفتار کیے جانے والے بھکاریوں میں سے 90 فیصد کا تعلق پاکستان سے ہوتا ہے۔
اس کمیٹی کے مطابق کچھ عرب ممالک اور عراق میں گرفتار کیے جانے والے بھکاریوں میں سے 90 فیصد کا تعلق پاکستان سے ہوتا ہے۔ حرم کے اندر زیادہ تر جیب کترے بھی پاکستانی ہوتے ہیں۔ قائمہ کمیٹی کی جانب سے منعقد کیے جانے والے اجلاس کا مقصد بیرون ملک روانہ ہونے والے ہنر مند اور غیر ہنر مند مزدوروں (سکلڈ اینڈ اَن سکلڈ ورکرز) کے معاملے کا جائزہ لینا تھا۔
خیال رہے بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس کے پہلے چھ ماہ کے دوران تقریباً 4 لاکھ پاکستانی ملازمت کی خاطر ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ ان میں 40 فیصد ہنرمند اور 42 فیصد غیر ہنر مند مزدور شامل ہیں۔ جن میں سے تقریباً 47 فیصد سعودی عرب اور کم و بیش 25 فیصد عرب امارات گئے جس کے بعد دیگر خلیجی ریاستوں کا نمبر آتا ہے۔
پیشہ ور بھکاری اور عمرے یا وزٹ ویزا پر جاتے ہیں
اوورسیز منسٹری کے سکیرٹری ذوالفقار حیدر نے کمیٹی کو بتایا، ”اسلام آباد میں مقیم سفیر ہمیں کہتے ہیں کہ آپ عادی مجرم ہمارے پاس بھیجتے ہیں جس سے ہماری جیلیں بھر گئی ہیں۔ یہ انسانی اسمگلنگ کا مسئلہ ہے۔ بھکاری زیادہ تر عمرے یا وزٹ ویزے پر جاتے ہیں اور زیارات کے مقامات پر بھیک مانگتے ہیں۔ ہمارے کئی افراد اس لیے ڈی پورٹ ہو رہے ہیں کہ وہ وہاں جاکر بھکاری بن جاتے ہیں۔"
سید ہادی حسن کا تعلق پارہ چنار سے ہے اور وہ گزشتہ آٹھ برسوں سے بطور سالار کام کر رہے ہیں۔ سالار یعنی ایک ایسا فرد جو عراق یا ایران جانے والے زائرین کے قافلے کی قیادت کرتا ہے اور انہیں لے جانے، وہاں رہائش کا بندوبست کرنے اور واپس لانے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ اب عراق نے بھی پاکستانی زائرین پر کافی سختی کر دی ہے، جس کا سبب پاکستانیوں کی غیر قانونی سرگرمیاں ہیں، ”عراق میں معاوضہ ڈالر کی شکل میں ملتا ہے اس لیے کچھ لوگ زائرین کے روپ میں وہاں کمائی کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ ایسے افراد اربعین کے دنوں میں بھیک مانگتے ہیں اور بعد میں وہیں چھپ کر مزدوری کرنے لگتے ہیں۔ جیسے ہی پکڑے جائیں تو ڈی پورٹ کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
عراقی قوانین میں بھکاریوں پر مالی جرمانہ اور ایک سے چھ ماہ تک کی قید کی سزا ہے۔ سید ہادی حسن کے مطابق یہ افسوسناک ہے لیکن بعض پاکستانی شہری ایسی سرگرمیوں میں ملوث پائے جاتے ہیں جو باقی کمیونٹی کے لیے شرمندگی کا باعث ہوتا ہے،''اب جب تک زائرین کے قافلے میں شامل تمام افراد واپسی پر ساتھ نہ ہوں عراقی حکام پلٹنے نہیں دیتے، چاہے کئی کئی دن سرحد پر انتظار ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔" عراق سے شائع ہونے والے آن لائن نیوز پیپر عراقی نیوز نے 2018ء میں دو سو پاکستانی بھکاریوں کی گرفتاری کی خبر دی تھی۔
متحدہ عرب امارات سے شائع ہونے والے اخبار دی نیشنل میں2017ء کے دوران ایک رپورٹ 'عمان اور یمن میں رمضان کے دوران پاکستانی بھکاریوں کے جھرمٹ‘ کے نام سے پبلش ہوئی۔ اس کے مطابق، ”رمضان کے مہینے میں کچھ پاکستانی گوادر کے راستے عمان اور یمن پہنچ کر بھیک مانگتے ہیں۔ یہ گداگر مساجد کے باہر ہی نہیں بلکہ در در جا کر بھی یہ کام کرتے ہیں۔"
بطور پاکستانی بدنامی ہم سب کی ہوتی ہے، رانا مسعود
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے اوورسیز ایمپلائمنٹ کارپوریشن کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر رانا مسعود کہتے ہیں، ''بہت معمولی تعداد یہ شرمناک حرکت کرتی ہے مگر بطور پاکستانی بدنامی ہم سب کی ہوتی ہے۔"
وہ کہتے ہیں، ”ہر سال لاکھوں پاکستانی محنت مزدوری کرنے ملک سے باہر جاتے ہیں ان میں کتنے افراد بھیک مانگتے ہیں؟ زیادہ سے زیادہ چند سو جو مجموعی تعداد کا ایک فیصد بھی نہیں بنتا۔ بعض اوقات میڈیا نان ایشو کو ایشو بنا دیتا ہے۔" وہ تسلیم کرتے ہیں کہ اس سے ملک کی ساکھ مجروح ہوتی ہے اور ایسے افراد کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں جو واقعی پڑھنے کے لیے، زیارات کے لیے یا مزدوری کے لیے ورک ویزا پر جا رہے ہوتے ہیں۔
’اب ہنرمند افراد کی مانگ ہے‘
سکیرٹری اوورسیز نے بیرون ملک روزگار کے مواقع کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کمیٹی کو بتایا کہ اب ہنرمند افراد کی مانگ بڑھ رہی ہے۔ سعودی عرب کو مزدوروں کی ضرورت ہے لیکن وہ تربیت یافتہ افراد کو ترجیح دیتے ہیں، '' ہمارے 30 لاکھ افراد سعودی عرب میں ہیں، جبکہ ڈیڑھ لاکھ پاکستانی متحدہ عرب امارات میں ہیں۔‘‘
کمیٹی کے رکن رانا محمود الحسن نے کہا کہ جاپان نے 3 لاکھ چالیس ہزار ہنرمند افراد مانگے جن میں سے انڈیا نے ڈیڑھ لاکھ اور نیپال نے اکیانوے ہزار ورکرز بھیجے۔ بنگلہ دیش اور سری لنکا نے بھی کافی سارے ہنرمند افراد جاپان بھیجے لیکن پاکستان سے محض دو سو مزدور جاپان جا سکے۔ حالانکہ ہمارے پاس پچاس ہزار انجینیئر بے روزگار ہیں۔
ہنرمند افراد کو سرٹیفیکیٹ جاری کرنے اور تربیت دینے کے حوالے سے نیشنل سکلز یونیورسٹی اسلام آباد پاکستان کا ایک ممتاز ادارہ ہے۔ اس ادارے سے وابستہ ڈاکٹر ارتضی بلوچ کا کہنا ہے کہ ہنرمند پاکستانی مزدوروں کا مسئلہ سرٹیفکیٹ نہ ہونا ہے۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”اس میں کوئی شک نہیں اب تربیت یافتہ ورکر کی ڈیمانڈ ہے۔ پاکستان میں لوگ ہنرمند ہونے کے باوجود سرٹیفکیٹ سے محروم ہوتے ہیں۔ اگر عام مزدوروں نے کسی تعلیمی ادارے یا سکل سینٹر سے تربیت نہیں حاصل کی مگر وہ اپنا متعلقہ کام جانتے ہیں تو ان کے لیے ٹیسٹ اور سرٹیفکیٹ کا کوئی جامع نظام ہونا چاہیے۔‘‘
رانا مسعود کہتے ہیں، ”سعودی عرب میں ہماری افرادی قوت بہت آسانی سے کھپ سکتی ہے۔ یہ ملک اپنے وژن 2030 کے تحت بہت سی ترقیاتی سکیمیں متعارف کروا رہا ہے۔ اس لیے وہاں آئندہ چند سالوں میں ہنر مند افراد کی مانگ میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ اس بات کے پیش نظر حکومت پاکستان نے سعودی عرب میں ایک ٹریننگ سینٹر قائم کیا ہے جو بہت جلد کام کرنا شروع کر دے گا۔" ڈاکٹر ارتضی کا کہنا ہے کہ جہاں ایک غیر تربیت یافتہ ورکر ہزار ریال کے معاوضے پر مزدوری کرتا ہے وہی کام ایک تربیت یافتہ ورکر دو ہزار ریال میں کرتا ہے۔ یہ بہت واضح فرق ہے، جس کے اثرات ترسیلات زر پر ہوں گے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔