جرمنی: ماں بننے والی خواتین کی اوسط عمر پہلی مرتبہ 30 برس سے زیادہ
یہ پہلا موقع ہے جب جرمنی میں مائیں اوسطاً 30 سے زیادہ کی ہیں اور کم عمر کی ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔ پہلے یورپی یونین میں اطالوی خواتین پہلے بچے کی پیدائش کے لیے سب سے زیادہ انتظار کرتی ہیں۔
اعداد و شمار سے متعلق جرمن ایجنسی ڈیسٹاٹیس نے تین مئی منگل کے روز جو تازہ ڈیٹا شائع کیا ہے، اس کے مطابق سن 2020 کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ جرمنی میں اپنے پہلے بچے کو جنم دینے کی خواتین کی اوسط عمر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
اس کے مطابق اب جرمنی میں پہلی بار ماں بننے کی اوسط عمر 30 برس دو ماہ ہے۔ ایک دہائی قبل جرمنی میں پہلی بار ماں بننے کی خواتین کی اوسط عمر 29 سال تھی۔
محققین نے یہ بھی پایا کہ جرمنی میں پہلی بار اپنے پہلے بچے کو جنم دینے والی ماؤں میں سے صرف صفر اعشاریہ آٹھ فیصد خواتین کی عمریں ہی 18 برس سے کم تھیں۔ اس کے ساتھ ہی دو اعشاریہ نو فیصد ہی ایسی خواتین ہیں جنہوں نے 2020 میں 40 برس یا اسے سے بھی زیادہ عمر میں اپنے پہلے بچے کو جنم دیا تھا۔ جرمن ایجنسی نے اسی سال تقریباً 360,000 پہلی بار ماؤں سے پیدا ہونے والے بچوں کو بھی ریکارڈ کیا۔
سب سے چھوٹی عمر کی مائیں بلغاریہ میں
یوروپی یونین میں اعداد و شمار کے ادارے یورو اسٹاٹ کے مطابق یورپی یونین کے دیگر ارکان بھی اسی جرمن رجحان کی عکاسی کرتے ہیں، تاہم پہلی بار ماں بننے والی ماؤں کی اوسط عمر ابھی بھی تیس برس سے کم، یعنی تقریبا ًساڑھے انتیس برس ہے۔
اٹلی میں پہلی بار ماں بننے کی اوسط عمر 31 برس چار ماہ کے آس پاس ہے اور وہ اس رجحان کی قیادت کر رہا ہے۔ اسپین میں یہ 31.2 ہے، جبکہ لکسمبرگ میں 31 کے آس پاس ہے۔ پورے یورپ میں سب کم عمر کی مائیں بلغاریہ میں ہیں، جہاں پہلی بار ماں بننے والی خواتین کی اوسط عمر 26 برس چار ماہ ہے۔ رومانیہ میں اوسط عمر 27.1 جبکہ سلوواکیہ میں یہ 27.2 ہے۔
اس سے قبل جرمنی میں سن 2020 کے دوران آبادی میں اضافہ صفر کے برابر رہا، جہاں کورونا وائرس کی وجہ سے اموات کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا اور نقل مکانی بھی محدود ہو کر رہ گئی تھی۔
تقریباً 82 ملین افراد پر مشتمل یورپی یونین کے ممالک ایک طویل عرصے سے اپنی قومی شرح پیدائش میں اضافے اور خواتین کو بچے پیدا کرنے کی ترغیب دینے کے لیے جدوجہد کرتے رہے ہیں، تاکہ اس کی بڑی معیشت کے لیے کام کرنے والے افراد وافر مقدار میں دستیاب رہیں۔ بیشتر ممالک میں کافی عرصے سے اوسطاً شرح پیدائش کم رہی ہے۔
اس کے ساتھ ہی حکام دوسرے ممالک کے نوجوانوں کو جرمنی کی طرف ہجرت کرنے پر آمادہ کرنے کی کوششیں بھی کرتے رہے ہیں۔ اس میں وہ تارکین وطن نوجوان شامل ہیں جو تعلیم یافتہ ہوں اور جن میں ملازمت کے پیشے کے ساتھ ہی بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کا زیادہ امکان ہو۔
تازہ ترین اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ اس وقت جرمنی میں رہنے والے ایک چوتھائی سے زیادہ لوگ یا تو غیر ملکی ہیں یا کم از کم ان کے والدین میں سے کوئی ایک تارکین وطن میں سے ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔