اسلام کو جمہوریت سے متصادم قرار مت دیجیے، جرمن آرچ بشپ
جرمنی کے آرچ بشپ لڈویگ شِک نے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلام کو جمہوریت سے متصادم قرار نہیں دیا جا سکتا۔ انہوں نے جرمنی میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے والوں سے بھی خبردار کیا ہے۔
جرمن آرچ بشپ لڈویگ شِک کی ایک نئی کتاب 'برداشت، کیا ہم یہ کر پائیں گے؟‘ منظر عام پر آئی ہے، جس میں انہوں نے اسلام اور جمہوریت کے حوالے سے بھی ایک باب قلمبند کیا ہے۔ کے این اے نیوز ایجنسی کے مطابق آرچ بشپ نے لکھا ہے کہ اسلام کو جمہوریت سے متصادم قرار دینے کا مفروضہ 'عملی سے زیادہ نظریاتی‘ ہے۔
لڈویگ شِک جرمن بشپس کانفرنس کے ورلڈ چرچ کمیشن کے چیئرمین بھی ہیں۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ''یہ سچ ہے کہ روایتی اسلامی قوانین ایک مکمل آزاد جمہوریت کے خلاف ہیں لیکن ساتھ ہی اسلامی قوانین مسلمانوں سے یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ وہ اسلامی ممالک سے باہر جائیں تو وہاں کے قوانین کو قبول کریں اور ان کی پاسداری کریں۔‘‘
اس حوالے سے آرچ بشپ نے مزید لکھا ہے کہ بحرحال وقت کے ساتھ ساتھ اسلام کی سخت تشریحات میں اضافہ ہوا ہے اور ایسی متشدد تشریحات قابل فکر بھی ہیں، ''ایسی تشریحات کو سنجیدہ لیا جانا ضروری ہے لیکن ساتھ ہی اسلام میں موجود تنوع کا انکار نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
ان کا خبردار کرتے ہوئے کہنا تھا کہ بہت سے لوگ اسلام کو مکمل طور پر آزادی کا دشمن قرار دیتے ہیں اور اس کو بنیاد بناتے ہوئے مسلمانوں کی مذہبی آزادی کی مخالفت کی جاتی ہے لیکن ایسے لوگوں کا مقابلہ کیا جانا ضروری ہے۔ اسلام کے بارے میں ایسے نظریات رکھنے والوں کے سامنے حکومت، معاشرے اور چرچ کو ڈٹ جانا چاہیے، ''جو صرف ووٹ حاصل کرنے کے لیے نفرت اور خوف پھیلاتے ہیں، وہ صرف انسانوں کے ہی درمیان نفرت کے بیج نہیں بو رہے بلکہ وہ وفاقی جمہوریہ جرمنی میں آزاد آئینی ریاست کو بھی پامال کر رہے ہیں۔‘‘
مسلمانوں اور غیر ملکیوں کے خلاف جرمنوں کے تعصب میں اضافہ
ان کے مطابق چرچ کو یقین ہے کہ مذہبی آزادی کے حق کی جامع ترجمانی ضروری ہے اور اس طرح ایک متنوع معاشرے میں تنازعات بھی پیدا ہوتے ہیں لیکن ایسے تنازعات گلیوں میں نفرت پھیلانے سے نہیں بلکہ عدالتوں میں حل کیے جانا ضروری ہیں، '' چاہے یہ بعض مسیحیوں کو ناپسند ہی کیوں نہ ہو، چرچ واضح طور پر مذہبی ہم آہنگی کے لیے بات چیت کا پابند ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت اسلام کے ساتھ بات چیت کا عمل ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے لیکن لازمی نہیں اس کا کوئی نتیجہ بھی نکلے۔ دنیا کے مسائل اتنی آسانی سے حل نہیں ہوتے اور لازمی نہیں کہ ایسی بات چیت کا کوئی مثبت حل نکلے لیکن بات چیت کا ہونا ضروری ہے۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔