’افغان خواتین کی مدد کے لیے ہر ممکن ذرائع استعمال کیے جائیں‘

جرمن کیتھولک چرچ کی خواتین کی ایسوسی ایشن اور جرمنی کے کیتھولک بشپس کے ترقیاتی اور امدادی ادارے ’میزیریؤر‘ نے جرمن حکومت سے اپیل کی ہے کہ افغانستان میں خواتین کی مدد کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے۔

’افغان خواتین کی مدد کے لیے ہر ممکن ذرائع استعمال کیے جائیں‘
’افغان خواتین کی مدد کے لیے ہر ممکن ذرائع استعمال کیے جائیں‘
user

Dw

جرمنی میں کیتھولک چرچ کے ان اداروں کی طرف سے برلن حکومت سے یہ اپیل خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے کی گئی۔ ان اداروں نے وفاقی جرمن حکومت سے کہا ہے کہ وہ افغان شہری آبادی کی حمایت جاری رکھے اور خاص طور پر خواتین کی مدد کے لیے ہر ممکن کوشش کرے۔ اس سلسلے میں شدید مشکلات کے سدباب کے لیے فوری امداد کے ساتھ ساتھ افغانستان میں خاص طور سے خواتین کی ابتر صورتحال کے پیش نظر طویل المدتی امداد پر زور دیا گیا ہے۔

جرمن کیتھولک چرچ کی خواتین کی ایسوسی ایشن اور جرمنی کے کیتھولک بشپس کے ترقیاتی اور امدادی ادارے Misereor 'میزیریؤر‘ کے نمائندوں نے امسالہ خواتین کے عالمی دن کے موقع پر بیان جاری کیا، جس میں کہا گیا، ''افغانستان میں طالبانکے دور حکومت میں عوامی زندگیاں ویران ہو چُکی ہیں۔ اس لیے ہم وفاقی جرمن حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کو دوبارہ شروع کرنے کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔‘‘ افغانستان میں خواتین کے ساتھ اور ان کے لیے بنیادی سماجی ڈھانچے کی بہتری کے ترقیاتی منصوبوں کو دسمبر میں عارضی طور پر معطل کر دیا گیا تھا۔


کیتھولک چرچ کی ان دونوں تنظیموں نے مزید کہا ہے کہ افغانستان میں چاہے طالبان کی ناانصافی کا نظام کتنا بھی مضبوط نظر آئے اور شہری آبادی کی مدد کا کام جتنا بھی مشکل ہو، افغان شہریوں، خاص طور سے خواتین کو مدد اور تمام افغان باشندوں تک امداد غیر مشروط طریقے سے پہنچنی چاہیے۔

خواتین میں بھوک کے خطرات

گزشتہ سال دسمبر سے افغانستان میں سرکاری تنظیموں میں خواتینکے کام کرنے پر پابندی عائد ہے۔ نتیجہ یہ کہ خواتین اور لڑکیاں، جن کی دیکھ بھال صرف خواتین ہی کر سکتی ہیں، ان تک اب مناسب امداد نہیں پہنچ رہی۔ ’میزیریؤر‘ سے منسلک افغان امور کی ایک خاتون ماہر انا ڈرکسمائیر کہتی ہیں، ''افغانستان میں طالبان نے صنفی علیحدگی کا سختی سے حکم دے کر خواتین اور ان کے بچوں کو فاقہ کشی کی طرف دھکیل دیا ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا، ''طالبان نے، اقوام متحدہ کے دباؤ میں، اب انسانی امداد میں کام کرنے والی خواتین پر سے پابندی ہٹا دی ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ان حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ جب خواتین کو گھر تک محدود رکھا جائے گا اور انہیں صرف ایک مرد محافظ کے ساتھ عوامی مقامات یا گھر سے باہر جانے کی اجازت ہو گی، تو طبی دیکھ بھال، تعلیم یا دیگر امدد تک خواتین کی رسائی نہ ہونے کا خطرہ واضح طور پر بڑھ جاتا ہے۔‘‘ انا ڈرکسمائیر کا مزید کہنا ہے، ''اس سے ان کے حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزی ہوتی ہے۔ بیوہ، سنگل پیرنٹ یا تنہا والدین اور خواتین اور لڑکیاں، جو اندرون ملک فرار ہونے پر مجبور ہیں، وہ خاص طور پر متاثر ہوئی ہیں۔‘‘


افغانستان میں امدادی سرگرمیاں

Misereor افغانستان میں 50 سال سے زیادہ عرصے سے سرگرم ہے۔ یہ ادارہ 40 سالوں سے مقامی پارٹنرز کے ساتھ مل کر کچھ منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ اس وقت وہاں جن 12 ترقیاتی اور امدادی منصوبوں پر کام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ان کا تعلق بنیادی طور پر صحت، تعلیم اور معاشی شعبوں سے ہے، جس کے لیے سات ملین یورو کی امدادی رقم مختص کی گئی ہے۔

'میزیریؤر‘ کے افغانستان میں پروجیکٹ پارٹنرز میں سے ایک نے ایک تعلیمی منصوبے کا وہ حصہ روک دیا ہے، جس کی طالبان نے صرف لڑکوں اور مردوں کے لیے اجازت دی تھی۔ دوسری طرف، 'میزیریؤر‘ ملک کے شمال میں خواتین کے لیے پیشہ ورانہ تربیت کو فروغ دینے کا کام جاری رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔ شمالی علاقے میں موجود خواتین نے بہادری کے مظاہرہ کرتے ہوئے مقامی طالبان کے ساتھ اس پروجیکٹ کے بارے میں مذاکرات کیے ہیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔