چین: غیرمعمولی احتجاجی مظاہروں کے بعد کووڈ کی پابندیاں ختم
حکام نے گوانگ ژو میں کم از کم سات اضلاع سے عارضی لاک ڈاون ختم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ سرکاری میڈیا نے ایک اعلیٰ سرکاری اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ وائرس کا زور کمزور ہو گیا ہے۔
چینی حکومت کی جانب سے کووڈ کے نئے کیسز سامنے آنے کے بعد انتہائی سخت لاک ڈاون جیسا متنازع لائحہ عمل اب کمزور پڑتا دکھائی دے رہا ہے کیونکہ حکام نے کئی بڑے شہروں میں غیر معمولی احتجاجی مظاہروں کے بعد پابندیوں کو نرم کرنے کے اشارے دیے ہیں۔
مینوفیکچرنگ کے مرکز کے طور پر مشہور گوانگ ژو صوبے کے کم از کم سات اضلاع میں بدھ کے روز لاک ڈاون اٹھا لیا گیا۔ ان میں ہائژو شہر بھی شامل ہے جہاں حالیہ دنوں میں سب سے بڑے مظاہرے دیکھنے کو ملے تھے۔ وسطی شہر چونگ قنگ میں پابندیوں میں نرمی کی گئی ہے۔
کووڈ کا وائرس 'کمزور' پڑ گیا ہے
چین کی نائب وزیراعظم سون چونلان، جو ملک میں انسداد کووڈ مہم کے نگراں بھی ہیں، نے بتایا کہ وائرس اب کمزور پڑتا جا رہا ہے اور اس کے اثر انداز ہونے کی صلاحیت کم ہو رہی ہے۔
انہوں نے چین کی سرکاری میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "وبا کی روک تھام اور کنٹرول کے حوالے سے ملک ایک نئی صورت حال اور نئے اقدامات کا متقاضی ہے کیونکہ اومیکرون وائرس کی اثرپذیری کمزور ہو رہی ہے، زیادہ سے زیادہ افراد کو ویکسین لگائے جارہے ہیں اور وائرس کو قابو میں کرنے کے تجربات بروئے کار لائے جا رہے ہیں۔"
نائب وزیراعظم سون چونلان کا بیان اس لحاظ سے کافی اہم ہے کہ یہ انتہائی سخت لاک ڈاون نافذ کرنے کے حوالے سے چین کے سرکاری موقف کے برخلاف ہے۔ حالانکہ دنیا کی دیگر بڑی معیشتوں نے لاک ڈاون کو بہت پہلے ختم کردیا ہے۔
سون نے ملک کے مختلف حصوں میں حالیہ دنوں ہونے والے زبردست احتجاجی مظاہروں کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ حالانکہ سخت انسداد وبا پالیسیوں پرعمل درآمد کے باوجود چین میں روزانہ کووڈ کے نئے کیسز کا ریکارڈ اندراج ہو رہا ہے۔
کووڈ کے نئے کیسز سامنے آنے کے بعد حکومت نے لاک ڈاون نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا جس کے بعد شنگھائی، بیجنگ اور دیگر شہروں میں بڑے پیمانے پر پرتشدد مظاہرے ہوئے۔ بدھ کے روز گوانگ ژو میں سکیورٹی فورسز نے مظاہرین پر لاٹھیاں برسائیں۔
چین کے اعلیٰ سکیورٹی ادارے نے منگل کو ایک انتباہ جاری کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ حکام ''دشمن قوتوں کی دراندازی اور تخریب کاری کی سرگرمیوں"کے خلاف ''کریک ڈاؤن" سے باز نہیں آئیں گے جبکہ سویلین حکام نے کہا کہ ''غیر قانونی اور مجرمانہ کارروائیاں، جو سماجی نظم و ضبط میں خلل ڈالیں گی، قبول نہیں کی جائیں گی۔"
چین میں اس حالیہ تحریک کو سول نافرمانی کی سب سے بڑی لہر قرار دیا جا رہا ہے، جس سے عوامی جمہوریہ چین 1989ء میں تیانمن سانحے کے بعد دوچار ہے۔ چین کی نائب وزیر اعظم کی جانب سے تازہ ترین بیان کے بعد محسوس ہوتا ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ کی طرف سے ملک میں عائد سخت انسداد کووڈ پالیسی جلد ہی ختم ہو سکتی ہے۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اے این زیڈ تھنک ٹینک کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نئے ضابطوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ "چینی حکام 'کووڈ کے ساتھ زندگی گزارنے' کے موقف کی جانب بڑھ رہے ہیں کیونکہ اب زبردستی قرنطینہ مراکز لے جانے کے بجائے لوگوں کو 'گھروں میں ہی الگ تھلگ رہنے' کی اجازت دے دی گئی ہے۔"
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔