لندن پولیس کا ہتھیاررکھنے سے گریز، فوج کو تیار رہنے کا حکم
لندن میں میٹروپولیٹن پولیس کے تقریباً 100 افسران نے ڈیوٹی کے دوران آتشیں اسلحہ رکھنے سے انکار کر دیا۔ ان کے ایک ساتھی پر ایک غیر مسلح سیاہ فام شخص کو گولی مار کر قتل کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
اتوار کے روز برطانیہ نے اپنی فوج کو اس وقت تیار رہنے کا حکم دیا، جب لندن کے متعدد پولیس افسران نے اپنے ایک ساتھی افسر کی حمایت میں اپنے ہتھیار حکام کے حوالے کر دیے۔ واضح رہے کہ ایک پولیس افسر پر ایک نوجوان سیاہ فام شخص کو گولی مار کر ہلاک کرنے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
برطانیہ کی وزارت دفاع نے انسداد دہشت گردی کے فرائض میں معاونت کا حوالہ دیتے ہوئے، اس بات کی تصدیق کی کہ اب وہ مخصوص کاموں میں پولیس کی مدد کرے گی۔ واضح رہے کہ لندن کی میٹروپولیٹن پولیس انسداد دہشت گردی جیسی کارروائیاں انجام دیتی ہے اور ڈیوٹی کے دوران اس کے افسران مخصوص آتشیں اسلحے سے مسلح ہوتے ہیں۔
برطانیہ میں پولیس عام طور پر مسلح نہیں ہوتی ہے اور بہت کم تناسب (لندن میں تقریباً 10 میں سے ایک پولیس افسر) کو بندوق رکھنے کا اختیار ہوتا ہے اور وہ بھی اعلیٰ تربیت یافتہ ہوتا ہے۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک ساتھی پولیس افسر کے خلاف قتل کے الزام کے بعد بطور احتجاج ایسے تقریبا سو پولیس افسران نے ڈیوٹی کے دوران آتشیں اسلحہ رکھنے سے منع کر دیا ہے۔
پولیس افسر کے خلاف مقدمے کی سماعت
ایک آتشیں اسلحہ والے پولیس افسر کی عدالت میں پیشی کے بعد افسران نے ہتھیار نہ رکھنے کا اعلان کیا ہے۔ حکام نے اس افسر کا نام ایم ایکس 121 ظاہر کیا ہے، جن پر ستمبر سن 2022 میں 24 سالہ کرس کابا کی موت کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ جب یہ واقعہ پیش آیا اس وقت کابا جنوبی لندن کے اسٹریتھم علاقے میں اپنی گاڑی چلا رہے تھے، تبھی پولیس نے ان پر گولی چلائی اور اس کے چند گھنٹے بعد ہی ان کی موت ہو گئی۔ اس واقعے کے وقت کابا غیر مسلح تھے۔
اس کیس کے سامنے آن کے بعد میٹروپولیٹن پولیس کے خلاف ادارہ جاتی نسل پرستی کے الزامات پھر سے ابھر کر سامنے آئے ہیں۔ کابا کے اہل خانہ نے افسر کے خلاف قتل کے الزام کا خیر مقدم کیا ہے، جنہیں بعض شرائط کے ساتھ ضمانت دی گئی ہے اور توقع ہے کہ آئندہ سال ان پر باقاعدہ مقدمے کی سماعت شروع کی جائے گی۔
وزیر داخلہ کی پولیس افسران کی حمایت
پولیس کے اس غیر معمولی احتجاج نے وزیر داخلہ سویلا بریورمین کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ ان کے حق میں بیان جاری کریں۔ انہوں نے کہا کہ آتشیں اسلحہ رکھنے والے افسران کو ''صرف چند لمحوں کے اندر فیصلہ'' کرنا ہوتا ہے اور ''اپنے فرائض کی انجام دہی کے لیے انہیں کٹہرے میں کھڑا کرکے خوفزدہ نہیں کرنا چاہیے۔''
ان کا مزید کہنا تھا، ''ہم اپنے بہادر آتشیں اسلحے والے افسران پر انحصار کرتے ہیں تاکہ معاشرے میں سب سے زیادہ خطرناک اور پرتشدد چیزوں سے بچایا جا سکے۔ عوامی تحفظ کے مفاد میں انہیں غیر معمولی دباؤ میں الگ الگ فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔'' میٹرو پولیٹن پولیس کے ترجمان نے کہا، ''متعدد افسران نے اپنے عہدے پر غور کرتے ہوئے مسلح فرائض سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔'' ان کے مطابق پچھلے 48 گھنٹوں کے دوران یہ تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
ترجمان نے کہا کہ بہت سے لوگ اس بارے میں پریشان ہیں کہ آخر اس فیصلے کا اثر ان پر، ان کے ساتھیوں اور ان کے خاندانوں پر کیا پڑے گا۔ انہوں نے کہا، ''انہیں اس بات کی تشویش ہے کہ یہ اس جانب تبدیلی کا اشارہ ہے کہ وہ جن انتہائی مشکل حالات میں جو فیصلے کرتے ہیں ان پر فیصلہ کیا جائے گا۔''
پریس ایسوسی ایشن کی اطلاع کے مطابق ہمسایہ پولیس فورسز سے تعلق رکھنے والے آتشیں ہتھیاروں کے اہلکار ہفتے کی رات لندن میں گشت میں مدد کے لیے پہنچے تھے۔ البتہ میٹروپولیٹن پولیس کا کہنا ہے کہ اس کے پاس اب بھی ''آتشیں اسلحہ کی صلاحیت'' رکھنے والا کافی عملہ دستیاب ہے۔
فوجیوں کو گرفتار کرنے کا اختیار نہیں
فوج کو پولیس کی مدد کے لیے طلب تو کیا گیا ہے تاہم انہیں ایسے مخصوص کام انجام دینے کے لیے بلایا جا سکتا ہے، جو پولیس انجام دینے سے قاصر ہے۔ لیکن وہ پولیس کا معمول کا کام نہیں کریں گے اور نہ ہی ان کے پاس گرفتاری کا اختیار ہو گا۔
برطانیہ میں پولیس کی جانب سے ہلاکت خیز فائرنگ شاذ و نادر ہی ہوتی ہے۔ کابا کے علاوہ سن 2020 کے بعد سے، برطانیہ میں پولیس افسران کے ایسے واقعات میں آٹھ دیگر افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ ان واقعات میں زیادہ تر مجرموں کی جانب سے چاقو یا آتشیں اسلحے کا استعمال کرتے ہوئے فائرنگ ہوئی تھی۔ یہ بھی انتہائی غیر معمولی بات ہے کہ برطانوی پولیس افسران پر ڈیوٹی کے دوران کیے گئے ایکشن کے لیے ان پر قتل یا قتل عام کا الزام عائد کیا جائے۔
حالیہ برسوں کے چند واقعات میں سے ایک میں، ایک پولیس کانسٹیبل کو سن 2021 میں ایک سابق پیشہ ور فٹ بال کھلاڑی کے قتل کے جرم میں آٹھ برس قید کی سزا سنائی گئی تھی، جو ایک اسٹن گن کی گولی لگنے اور جھگڑے کے دوران سر میں لات لگنے کی وجہ سے ہلاک ہو گیا تھا۔ اس مقدمے کے دوران افسر بنیامین مونک کو قتل کے الزام سے بری کر دیا گیا تھا، لیکن انہیں حملہ کرنے کرنے کا مجرم قرار دیا گیا تھا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔