افغانوں کو رضاکارانہ طور پر پاکستان چھوڑنے کے لیے مزید مہلت؟
غیر رجسٹرڈ غیر ملکیوں کے پاکستان سے بڑے پیمانے پر انخلاء کے سبب بدنظمی کے مدنظر حکومت نے سرحدی گزرگاہوں پر بچوں اور خواتین کو تصدیق سے مستشنٰی کر دیا ہے۔
غیر رجسٹرڈ غیر ملکی شہریوں کے لیے رضاکارانہ واپسی کی مہلت ختم ہوجانے کے بعد پاکستان کے مختلف سرحدی گزرگاہوں اور بالخصوص طورخم بارڈر پر ہزاروں افراد انخلاء کے لیے اپنی باری کے منتظر ہیں۔ گوکہ حکومت پاکستان نے دعویٰ کیا تھا کہ غیر ملکیوں کے انخلاء کے لیے تمام انتظامات مکمل کرلیے گئے ہیں لیکن سرحدی گزرگاہوں پر حالات اس کے برعکس دکھائی دے رہے ہیں۔
پاکستانی حکام نے حالات کو قابو سے باہر ہوجانے کے خدشے کے مدنظر کئی نئے اقدامات کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ غیر رجسٹرڈ غیر ملکیوں کے پاکستان سے انخلاء کو سہل بنانے کے لیے اب خواتین اور بچوں کو خصوصی سہولت دی جائے گی۔ اب بچوں اور خواتین کو نادرا کے کاونٹرز پر ڈیٹا انٹری سے مستشنٰی کردیا گیا ہے۔
وزارت داخلہ کے ایک اعلیٰ افسر نے بتایا کہ "وزارت داخلہ نے ہدایت جاری کی ہے کہ 14سال سے کم عمر کے بچوں اور خواتین کی نادرا کے ذریعہ انٹری کے لیے اسکین نہیں کیا جائے گا۔ رضاکارانہ وطن واپسی کے دوران اب صرف بالغ مردوں کا ہی اسکین کیا جائے گا۔" انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت پاکستان نے افغانستان جانے والی خواتین اور بچوں کی اب صرف "تعداد کی گنتی" درج کرنے کی ہدایت دی ہے۔
وزارت داخلہ کے افسر کا کہنا تھا کہ خواتین اور بچوں کو استشنیٰ دینے کے متعلق حکومت کے اس فیصلے سے سرحدی انتظامیہ کے اہلکاورں کو کافی سہولت ہوجائے گی اور صورت حال پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ جمعرات کے روز اسلام آباد میں وزارت داخلہ کے اعلیٰ حکام سے افغان سفیر کی ملاقات کے بعد کیا۔ افغان سفیر نے پاکستانی حکام سے کہا تھا کہ ثقافتی اور مذہبی حساسیت کے مدنظر خواتین کو اسکیننگ سے مستشنیٰ رکھا جائے۔
'افغان شہریوں کوباعزت نکلنے کے لیے مزید وقت دیا جائے'
افغانستان میں جنگ کی وجہ سے حالیہ دہائیوں میں لاکھوں افغان شہریوں نے اپنے وطن سے بھاگ کر پاکستان میں پناہ لے رکھی ہے۔ ان میں اگست 2021 میں طالبان حکومت کے اقتدار پر دوبارہ قبضہ کرنے اور اسلامی قانون کی اپنی سخت تشریحات نافذ کرنے کے بعد پاکستان آنے والے تقریباً چھ لاکھ افغان شامل ہیں۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ ان افغان شہریوں کی ملک بدری دراصل پاکستان کی "فلاح اور سلامتی" کے لیے کی جارہی ہے۔ کیونکہ حالیہ عرصے میں ملک کے اندر ہونے والے حملوں میں تیزی آئی ہے۔ حکومت پاکستان ان حملوں کے لیے افغانستان سے سرگرم عسکریت پسندوں کو مورد الزام ٹھہراتی ہے۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ طالبان پر سکیورٹی کے معاملات پر تعاون کرنے پر مجبور کرنے کے لیے دباو ڈالنے کا حربہ ہے۔
طالبان حکومت نے اس بات کی تردید کی ہے کہ افغان مہاجرین پاکستان میں عدم استحکام کے لیے ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے پاکستانی حکومت سے اپیل کی ہے کہ افغان شہریوں کو باعزت طورپر نکلنے کے لیے مزید وقت دے۔
اس دوران پاکستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے الزام لگایا ہے کہ حکومت افغان پناہ گزینوں کو نکلنے پر مجبور کرنے کے لیے دھمکیاں، بدسلوکی اور حراست کا استعمال کر رہی ہے۔ کئی افغان شہریوں نے من مانی گرفتاری اور ان سے بھتہ وصولنے کی بھی شکایتیں کی ہیں۔
کراچی میں مقیم انسانی حقوق کی کارکن منیزہ کاکڑ کا کہنا تھا کہ "پاکستان کا آئین ہر اس شخص کو، جو اس سرزمین پر موجود ہے، منصفانہ ٹرائل کا حق دیتا ہے، لیکن ان مہاجرین کو اس حق سے محروم کردیا گیا ہے۔"
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔