ہم انسانی حقوق کے لیے لڑائی جاری رکھیں گے، افغان خاتون کارکن
انسانی حقوق کی سرگرم خاتون کارکن تمنا زریاب پریانی نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی بات چیت میں کہا کہ افغانستان میں انسانی حقوق کی بحالی تک جدوجہد جاری رکھی جائے گی۔
گزشتہ برس جنوری میں پچیس سالہ تمنا زریاب پریانی کو طالبان نے کابل سے گرفتار کیا۔ انہیں تین ہفتوں تک دوران قید شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں انہوں نے اپنی آپ بیتی سنائی۔
''مجھے باندھا گیا۔ میرے ہاتھوں اور پیروں کو باندھا گیا۔ انہوں نے مجھے ٹانگوں سے پکڑا اور جیل کے ایک گارڈ میرے پیر کے تلووں پر مارتا تھا۔ کبھی کبھی وہ میرے پیر پانی میں ڈال کر تاروں کی مدد سے بجلی کے جھٹکے تب تک دیتے تھے جب تک میں بے ہوش نہ ہو جاؤں۔ وہ میرے منہ پر پلاسٹک کا تھیلا چڑھا دیتے تھے اور صرف تب ہٹاتے تھے، جب میرا دم گھٹنے کو ہوتا تھا۔‘‘
جنوری دو ہزار بائیس کو تمنا کو کابل سے نصف شب کے وقت گرفتار کیا گیا اور جیل میں ڈال دیا گیا۔ تین ہفتوں تک انہیں شدید نوعیت کے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی تین دیگر بہنوں کو بھی جیل میں ڈال دیا گیا۔ اس سے قبل تمنا نے طالبان کے خلاف ایک مظاہرہ منعقد کیا تھا۔
خواتین کے لیے نئے قوانین
طالبان نے تمنا پر عوامی طور برقع جلانے سمیت کئی نئے قوانین کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا تھا۔ اگست دو ہزار اکیس میں کابل پر قبضہ کرنے والے طالبان نے خواتین کے سیاسی اور سماجی کردار کو محدود کر دیا تھا اور ان پر مسلسل پابندیوں میں اضافے کا سلسلہ جاری ہے۔ طالبان کے قانون کے مطابق تمام خواتین کو حجاب پہننے کا پابند بنایا گیا ہے۔ گزشتہ برس مئی میں پابندیوں میں اضافہ کرتے ہوئے خواتین کو برقع پہننے کا کہا گیا تھا۔ طالبان نے کابل سمیت مختلف افغان شہروں میں پوسٹر لگائے تھے، جن میں برقع نہ پہننے والی خواتین کو جانور قرار دیا گیا تھا۔
تمنا زریاب پریانی قانون پڑھ چکی ہیں اور طالبان کے قبضے سے قبل وہ ایک اخبار میں بطور صحافی کام کرتی تھیں۔ کابل میں بہت سی دیگر خواتین کی طرح انہوں نے طالبان کی نئی پابندیوں کو ماننے سے انکار کر دیا۔ وہ ستمبر دو ہزار اکیس میںخواتین کے حقوق اور طالبان کے قبضے کے خلاف سڑکوں پر نکلنے والی سینکڑوں خواتین میں شامل تھیں۔ طالبان نے اس مظاہرے کو طاقت اور تشدد کے استعمال سے کچل دیا۔ تمنا ایسے میں فوری گرفتاری سے بچ گئیں تھیں، تاہم کچھ ہی عرصے بعد مسلح طالبان جنگجو ان کے اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے جہاں وہ اپنی تین بہنوں کے ساتھ مقیم تھیں۔
ایسے میں تمنا نے حاضر دماغی کا ثبوت دیا اور طالبان کے گھر میں داخلے کی ویڈیو فیس بک پر پوسٹ کر دی۔ یوں دنیا بھر میں لوگوں کو ان کی گرفتاری کا علم ہو گیا۔ ایسے میں ان کی جانب سے 'مدد‘ اور 'میری بہنوں کی زندگیاں بچا لیں‘ جیسے جملوں نے طالبان کی اس کارروائی سے پوری دنیا کو واقف کر دیا۔
قید اور تشدد
چاروں بہنوں زرمینہ، شفیقہ اور کرشمہ کو تمنا کے ساتھ گرفتار کیا گیا اور ایک ہی جیل میں بند کیا گیا، مگر ان کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں تھا۔ انہیں بھی چھبیس دن تک شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ سترہ سالہ شفیقہ کے مطابق، ''میں نے اس سے قبل موت کا کبھی نہیں سوچا تھا۔ میں اس عمر میں تھی، جب ایسے خیال میرے لیے اجنبی تھے۔ مگر طالبان کی قید کے بعد میں موت کے علاوہ کچھ نہیں سوچ سکتی تھی۔‘‘
انسانی حقوق کی تنظیموں اور عالمی برداری کی جانب سے شدید دباؤ کے بعد طالبان نے احتجاج میں شامل کافی تعداد میں خواتین کو زرضمانت کے عوض رہا کر دیا۔ رہائی کے بدلے ان خواتین سے ان کے گھر اور دیگر ملکیت کی چیزوں سے متعلق تمام تر تفصیلات طالبان نے لے لیں اور ان پر مظاہروں میں شرکت کرنے، کوئی سیاسی کردار ادا کرنے یا میڈیا سے گفتگو کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی۔
تیرہ فروری کو تمنا اور ان کی بہنوں کو گھر جانے کی اجازت دی گئی جب کہ اب طالبان نے خواتین کو مکمل برقع کے ساتھ ساتھ کسی محرم کے بغیر گھر سے نکلنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ اس کے علاوہلڑکیوں اور خواتین کو کالج یا جامعہ میں تعلیمحاصل کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔
باہر سے مدد
تمنا اور ان کی بہنوں کی گرفتاری پر سوشل میڈیا پر خوب شور مچا۔ تمنا کی گرفتاری کی ویڈیو کی وجہ سےجرمنی کے افغانستان سے لوگوں کے انخلا کے پروگرام 'کابل لُفٹ بروکے‘، خواتین کے میگزین 'ایما‘ کی ایڈیٹوریل ٹیم اور جرمن ایجنسی برائے بین الاقوامی تعلقات جی آئی زیڈ متوجہ ہوئے۔
اکتوبر دو ہزار بائیس میں تمنا اور ان کے خاندان کے تمام دس افراد کو پاکستان کے راستے جرمنی پہنچا دیا گیا اور وہ تب سے جرمنی کی تیز رفتار زندگی میں خود کو جذب کرنے کی کوشش میں ہیں۔ جیل میں جانے اور پھر رہائی کو ایک برس گزر چکا ہے، مگر ابھی ان چاروں لڑکیوں کو ان بدترین تشدد کے تین ہفتوں کی وجہ خوف اور ڈراؤنے خوابوں کا سامنا ہے۔
ہزاروں اب بھی وہیں پھنسے ہیں
جرمنی میں اب تمنا اور ان کی بہنیں محفوظ ہیں، مگر ان کا کہنا ہے کہ ان جیسی ہزاروں خواتین اور مرد طالبان کے ظالمانہ شکنجے میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جرمنی آمد کے بعد بھیطالبان کے کئی حامیوں کی جانب سے ان خواتین کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور اب بھی ان خواتین کو تہمتوں حتیٰ کہ دھمکیوں کا بھی سامنا ہے۔
زرمینہ افغانستان میں حقوق کے لیے احتجاج کرنے والی خواتین کا ذکر کرتی ہیں، تو ان کی آنکھیں بھر آتی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ بہت سی ایسی لڑکیاں جنہیں دوران قید جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، انہوں نے خودکشی کر لی، کیوں کہ انہیں خوف تھا کہ ''لوگوں کو اس کا علم ہوا، تو ان کے خاندان کی بدنامی ہو گی۔‘‘
تمنا کا کہنا ہے، ''ہم نے انصاف اور مساوات کی لڑائی لڑی ہے، ہم نے قربانیاں دیں ہیں، مگر ہم افغانستان میں اپنی ساتھیوں کو دیکھتی ہیں، تو یہاں بھی اسی کرب سے گزرتی ہیں۔‘‘
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔