خواتین کے لیے ماہِ رمضان برکت یا اضافی مشقت؟

رمضان بہت سے گھرانوں میں خواتین کے لیے ہ برکت سے زیادہ مشقت کا مہینہ بن جاتا ہے۔ خواتین پر پہلے ہی گھر کی لاتعداد ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ رمضان میں ان ذمہ داریوں کا بوجھ بڑھ جاتا ہے۔

خواتین کے لیے ماہِ رمضان برکت یا اضافی مشقت؟
خواتین کے لیے ماہِ رمضان برکت یا اضافی مشقت؟
user

Dw

رمضان کے چاند کا اعلان ہوتے ہی خواتین کا ذہن گھر کے فریج میں گھس جاتا ہے۔ کیا آٹا گندھا ہوا ہے؟ دہی موجود ہے یا منگوانی ہے؟سالن کافی ہے یا مزید پکانا ہے؟

ان کے دماغ میں خیالات کی ایک دوڑ شروع ہو جاتی ہے اور اس دوڑ کے ساتھ وہ خود بھی گھر میں بھاگنا شروع کر دیتی ہیں۔ بہت سے گھروں میں رمضان کی تیاری رمضان سے پہلے ہی شروع ہو جاتی ہے۔ سحری اور افطاری کے لیے سامان فریز کیا جاتا ہے۔ گھر کی صفائی ہوتی ہے اور کچن کا کونہ کونہ چمکایا جاتا ہے۔ اس کے باوجود رمضان کے شروع ہونے کے اعلان کے ساتھ ہی لازمی بھاگم دوڑ مچ جاتی ہے۔


خواتین کے لیے تو رمضان اس اعلان سے پہلے شروع ہو چکا ہوتا ہے۔ پہلی سحری کا انتظام کرنے سے لے کر گھر کے بقیہ کام نبٹانا اور پھر اپنی ہمت اور استطاعت کے مطابق عبادت کرنا۔ ہر گھر کا اپنا طور طریقہ ہوتا ہے اور گھر میں رہنے والے ہر فرد کی اپنی پسند نا پسند ہوتی ہے۔ کسی کو سحری میں روٹی چاہیے ہوتی ہے تو کسی کو پراٹھا تو کسی کو بس دہی۔ کسی نے سحری ختم ہونے سے آدھا گھنٹہ پہلے سحری کرنی ہے تو کوئی سحری سے صرف دس منٹ پہلے اٹھتا ہے اور انہیں اٹھانے کی ذمہ داری بھی گھر کی کسی خاتون کی ہوتی ہے۔

افطاری کا بھی یہی حال ہے۔ ہر فرد کی فرمائش الگ۔ کسی کا روزہ فروٹ چاٹ کے بغیر نہیں کھلتا تو کسی کو دہی بڑوں کے بغیر مزہ ہی نہیں آتا۔ کئی اقسام کے شربت اور چٹنیاں الگ۔ پھر برتن رکھنا اور اٹھانا، سب کو کھانے کی چیزیں دینا، پھر برتن دھونا، باورچی خانہ صاف کرنا۔ یہ الگ کام ہیں، جن کا کہیں کوئی شمار نہیں ہوتا۔ اس طرح رمضان خواتین کے لیے سال کا وہ مہینہ بن جاتا ہے جب وہ دن کے چوبیس گھنٹے کام کر رہی ہوتی ہیں۔ اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ اس کے بعد انہیں چھٹی بھی نہیں ملتی۔ عید کے تینوں دن انہیں شاندار دعوتوں کا انتظام کرنا پڑتا ہے۔ اس کے بعد بھی ان کی زندگی معمول پر آتے آتے کئی دن نکل جاتے ہیں۔


جو خواتین نوکری یا کاروبار کرتی ہیں یا جن پر گھر میں موجود بزرگوں اور چھوٹے بچوں کی ذمہ داری بھی ہوتی ہے، ان کی مصروفیت کا اندازہ آپ خود لگا لیں۔ پچھلے کچھ سالوں سے رمضان کے مہینے میں گیس کی شدید لوڈ شیڈنگ بھی ہو رہی ہے۔ گیس عین اس وقت چلی جاتی ہے جب خواتین نے سحری یا افطاری بنانی ہوتی ہے۔ سحری کا وقت ختم ہوتے ہی اور افطاری کا وقت شروع ہوتے ہی گیس آ جاتی ہے۔

اسلام دین فطرت ہے۔ یہ اپنے ماننے والوں کے لیے آسانیاں لے کر آیا ہے لیکن اس کے بہت سے ماننے والے ایک دوسرے کی زندگی آسانی سے گزرتے ہوئے نہیں دیکھ سکتے۔ ایسے لوگ جان بوجھ کر ایک دوسرے کو تکلیف دیتے ہیں۔ اللہ نے عورت کو اس کے مخصوص ایام میں ہر طرح کی عبادت سے رخصت دے رکھی ہے لیکن آج بھی کئی گھروں میں لڑکیاں اور خواتین حیض کے دوران بھوکی پیاسی رہتی ہیں، کچھ تو نماز پڑھنے کی اداکاری بھی کرتی ہیں کہ گھر کے مرد ناراض نہ ہو جائیں یا انہیں ”کچھ" پتہ نہ چل جائے۔


اس کے باوجود خواتین اپنی ذمہ داریوں کے ساتھ اس ماہِ مبارک کی برکات سمیٹتی ہیں۔ لیکن ان کا دل کہیں نہ کہیں چاند رات کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ جیسے ہی شوال کا چاند نظر آنے کا اعلان ہوتا ہے وہ جیسے ایک دم ہلکی پھلکی ہو جاتی ہیں۔ اب انہیں روزانہ آدھی رات میں اٹھ کر سحری نہیں بنانی۔ ظہر کی نماز پڑھتے ہوئے افطاری کا نہیں سوچنا۔ رات میں بار بار نہیں اٹھنا۔ بس چند دن اپنے عزیزوں کی دعوت کرنی ہے اور پھر معمول کی زندگی پر واپس آ جانا ہے۔

خواتین کے لیے یہ مہینہ آسان ہو سکتا ہے اگر ان کے گھر والے تھوڑا سا احساس کرتے ہوئے اس ماہ کی اضافی ذمہ داریاں آپس میں بانٹ لیں یا ان اضافی ذمہ داریوں کو ہی ختم کر دیں۔ رمضان کا مقصد تقویٰ حاصل کرنا ہے نہ کہ بھاری بھر کم سحری اور افطاری کرنا۔ اور اس کا بوجھ بھی گھر کے ایک فرد پر لاد دینا جو پہلے سے ہی کاموں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔


اگر ہم اس مہینے میں بھی اپنے گھر کے ہی فرد کے لیے اپنے دل میں احساس پیدا نہیں کر سکتے تو ہم اس مہینے سے کیا حاصل کر رہے ہیں؟ کچھ بھی نہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔