مظاہرین سے یکجہتی کے جرم میں گرفتار ایرانی فلم اسٹار رہا

آسکر ایوارڈ یافتہ فلم اسٹار ترانہ علیدوستی کو سوشل میڈیا پر ’اشتعال انگیز‘ پوسٹس کرنے پر ایرانی حکام کی جانب سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ڈھائی ہفتے سزا کاٹنے کے بعد انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے۔

مظاہرین سے یکجہتی کے جرم میں گرفتار ایرانی فلم اسٹار رہا
مظاہرین سے یکجہتی کے جرم میں گرفتار ایرانی فلم اسٹار رہا
user

Dw

ایرانی فلم اسٹار ترانہ علیدوستی کو ایران میں خواتین پر تشدد کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی حمایت کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اصغر فرہادی کی آسکر ایوارڈ جیتے والی فلم 'دی سیلز مین‘ میں اہم کردار ادا کرنے والی 38 سالہ اداکارہ ترانہ، ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کے مبینہ قتل کے بعد پھوٹ پڑنے والے مظاہروں کی حمایت اور حکومت کی جانب سے لگائی گئی پابندیوں پر کھلے عام تنقید کرنے والی کئی مشہور شخصیات میں سے ایک ہیں۔

ترانہ کو گرفتار کیوں کیا گیا؟

ترانہ نے اپنے انسٹا گرام اکاؤنٹ پر ایسی تین ویڈیوز شائع کی تھیں، جن میں انہوں نے ایرانی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ان ویڈیوز کی اشاعت کے فوری بعد ان کا انسٹا گرام اکاؤنٹ بھی بند کر دیا گیا۔


ترانہ نے اپنے انسٹاگرام پر مظاہرین کے ساتھ اظہارِ یکجتی کرتے ہوئے لکھا، ''اس کا نام موحسین شیکاری ہے، ہر وہ ادارہ، جو یہ خونی کھیل دیکھ رہا ہے اور خاموش ہے، انسانیت کی رسوائی کا ذمہ دار ہے‘‘۔ ان کے اس انسٹا گرام اکاؤنٹ پر آٹھ ملین فالورز ہیں۔ کئی مشہور شخصیات اور انسانی حقوق کے علمبردار گروپس نے ترانہ کی رہائی پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔

ایران میں مظاہروں کی وجہ کیا ہے؟

پولیس کی حراست میں 22 سالہ کرد نسل ایرانی خاتون مہسا امینی کی موت نے ایرانی خواتین کو روزمرہ کی تذلیل، بدسلوکی اور صنفی امتیاز کے خلاف سڑکوں پر آنے کے لیے مجبور کر دیا ہے۔ سکیورٹی فورسز کی جانب سے شدید کریک ڈاؤن کے باوجود ہزاروں ایرانی خواتین عوامی مقامات پر ہیڈ اسکارف پہننے سے انکار کر رہی ہیں اور انہوں نے اس پابندی کے خلاف ملکی سیاسی نظام کو چیلنج کر دیا ہے۔


ایمنسٹی انٹرنیشنل نے امینی کی موت کو 'پراسرار‘ قرار دیا ہے۔ اس ایرانی کرد خاتون کی ہلاکت ٹھیک سے اسکارف نا پہننے کے جرم میں مبینہ طور پر پولیس کی حراست کے دوران تشدد سے ہوئی تھی۔ اس خاتون کی موت کے بعد ایرانی عوام نے ملک میں خواتین کے خلاف سخت ترین ضوابط کے علاوہ معاشی بحران اور سماجی پابندیوں کے خلاف بھی آواز اٹھائی ہے۔ مظاہرین نے ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای کے بینرز کو آگ لگائی۔

ان حالیہ مظاہروں نے اس اسلامی جمہوریہ میں علما کی حکمرانی کے خاتمے کے مطالبات میں اضافہ کیا ہے۔ یہ حالیہ مظاہرے اس ملک کے مذہبی رہنماؤں کے لیے 1979 کے انقلاب کے بعد سے سب سے بڑے چیلنجز میں سے ایک ہے۔ موجودہ سخت گیر مذہبی ایرانی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی اسلامی شرعی قانون سمیت کئی پالیسیاں نافذ کیں، جن میں سے ایک خواتین کے لیے عوامی مقامات پر ہیڈ اسکارف پہننا لازم قرار دیا گیا تھا۔


ایرانی حکام کے مطابق ان مظاہروں کے نتیجے میں سینکڑوں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں ایرانی سیکورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔ ہزاروں لوگ زیر حراست ہیں۔ تاہم ایرانی حکومت کی جانب سے ان ''فسادات‘‘ کا ذمہ دار ملک دشمن بیرونی طاقتوں اور اپوزیشن کو ٹھہرایا جا رہا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔