ایران: مہسا امینی کی برسی پر نئی مغربی پابندیوں کی مذمت
اسلامی جمہوریہ ایران نے مہسا امینی کی ہلاکت کے ایک سال مکمل ہونے پر مغربی طاقتوں کی طرف سے نئی پابندیاں کے اعلان کی سخت مذمت کرتے ہوئے انہیں ’’غیر قانونی‘‘ فیصلے قرار دیا ہے۔
تہران حکومت کی طرف سے مہسا امینی کی ایرانی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے واقعے کو ایک سال مکمل ہونے پر امریکہ سمیت یورپی ممالک کی طرف سے نئی پابندیوں کے اعلان کے فیصلے پر سخت احتجاج کرتے ہوئے اسے ''غیر قانونی‘‘ قرار دیا ہے۔ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین نے جمعے کو متعدد ایرانی افراد اور اداروں پر نئی پابندیوں کا اعلان کیا۔
کُرد نژاد 22 سالہ ایرانی خاتون مہسا امینی، 16 ستمبر 2022 ء کو تہران میں خواتین کے لیے اسلامی جمہوریہ کے سخت لباس کوڈ کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں گرفتاری کے بعد پولیس کی حراست میں انتقال کر گئی تھیں۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے جمعہ 15 ستمبر کو جاری کردہ ایک بیان میں مغربی ممالک کے، ان کے بقول ان ''غیر قانونی اور غیر سفارتی اقدامات‘‘ کی مذمت کی۔ ساتھ ہی انہوں نے مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ایران میں شروع ہونے والی حکومت مخالف تحریک کی مغربی طاقتوں کی طرف سے حمایت کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ کنانی نے اسے ایران کے اندرون معاملات میں مغربی ممالک کی طرف سے ''مداخلت پسندانہ اقدامات، مضحکہ خیز اور منافقانہ بیان بازی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے حکومت مخالف تحریک کی حمایت قرار دیا۔
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان ناصر کنانی نے یورپی سفارت کاروں کو ان کے بقول ''غیر تعمیری رویے‘‘ سے باز رہنے کا مشورہ دیا۔ کنانی کا کہنا تھا، ''یہ رویے یورپی سفارتکاروں کے مفادات کو پورا نہیں کریں گے۔‘‘
جمعہ 15 ستمبر کو امریکی انتظامیہ نے 25 ایرانی حکام ، تین میڈیا اداروں اور ایک انٹرنیٹ سنسر شپ فرم کو اپنی پابندیوں کی بلیک لسٹ میں شامل کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان میں کہا گیا کہ مزید پابندیوں کی زد میں آنے والوں کا تعلق مہسا امینی کی موت کے بعد تہران میں احتجاج کو دبانے کی کارروائیوں سے تھا۔ ان میں اکثریت قومی پولیس فورس اور اسلامی انقلابی گارڈ کور کے علاقائی کمانڈرز کی تھی۔
ایران کی جیلوں کے منتظم اعلیٰ غلام علی محمدی پرامریکی وزارت خزانہ نے الزام لگایا تھا کہ وہ تشدد اور عصمت دری سمیت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی رہنمائی کرتے رہے ہیں ان پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔
پابندیوں کی زد میں آنے والے تین میڈیا اداروں میں سرکاری کنٹرول والے پریس ٹی وی کے ساتھ ساتھ تسنیم اور فارس نیوز ایجنسیاں بھی شامل ہیں۔ برطانیہ کی جانب سے پابندیوں کی لسٹ میں ایران کے وزیر ثقافت اور اسلامی رہنمائی محمد مہدی اسماعیلی، ان کے نائب محمد ہاشمی، تہران کے میئر علی رضا زکانی اور ایرانی پولیس کے ترجمان سعید منتظر المہدی شامل کے نام شامل ہیں۔
یورپی یونین کی طرف سے پیش کردہ بلیک لسٹ میں چار ایرانی عہدیداروں کو شامل کیا گیا۔ ان میں سے ایک پاسداران انقلاب کے کمانڈر، دو علاقائی پولیس سربراہان اور ایک جیل کے سربراہ ہیں۔ ایران پر مزید پابندیوں کے ضمن میں کینیڈا اور آسٹریلیا کے ساتھ بھی کواورڈینیٹ کیا گیا ہے۔
گزشتہ برسمہسا امینی کی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے مظاہروں میں سینکڑوں افراد ہلاک ہوئے، جن میں درجنوں سکیورٹی فورسز کے اہلکار بھی شامل تھے جبکہ اب تک ہزاروں افراد کی گرفتاری بھی عمل میں لائی گئی۔ تہران حکومت نے عوامی احتجاج اور مظاہروں کو غیر ملکی حکومتوں کی طرف سے بھڑکائے جانے والے ''فسادات‘‘ کا نام دیا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔