دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے 75 سال بعد: ماضی کا سبق
آٹھ مئی کو نازی جرمنی نے ہتھیار ڈال دیے۔ اس سے یورپ میں دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ ہوا۔ اس واقعے کی برسی اس بار ایک ایسے وقت میں آئی ہے جب اسے یاد کرنا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہوگيا ہے۔
30 اپریل 1945 ء کی سہ پہر اڈولف ہٹلر کو صرف ایک ہی راستہ دکھائی دیا۔ سوویت یونین کی ریڈ آرمی نے برلن کے قلب میں طوفان برپا کر دیا۔ ہٹلر ان کے ہاتھوں میں نہیں جانا چاہتا تھا بظاہر اپنی مجرمانہ احساس برتری کی ذمہ داری قبول کرنے سے گریز کرتے ہوئے۔ نازی ڈکٹیٹر اور اس کی نئی شادی شدہ بیوی ایوا براؤن نے چانسلری کے گراؤنڈ میں 12 میٹر زیر زمین ''فيوہرر بنکر‘‘ میں خودکشی کرلی۔ آخری وفادار اپنے جسم کو جلا دیتے ہیں اور باقیات کو بنکر سے باہر نکلنے کے قریب دفن کرتے ہیں۔
دنیا میں رونما سفاکانہ تبدیلیاں
8 مئی کے روز ہی ہٹلر کے راج کے اختتام پر مہر لگا دی گئی تھی اور فوجی قیادت نے جرمنی کے ہتھیار ڈالنے کے غیر مشروط معاہدے پر دستخط کردیے۔
اس سے یورپ میں دوسری عالمی جنگ کا خاتمہ ہو گیا، جو یکم ستمبر 1939ء کو جرمنی کے پولینڈ پر حملے سے شروع ہوئی تھی اور ایشیاء میں کئی مہینوں تک جاری رہتی، اگر جاپان نے 2 ستمبر 1945ء کو ہتھیار نہ ڈال دیے ہوتے۔ اندازوں کے مطابق ، جنگ کے اختتام تک 60 ملین سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے تھے اور دنیا کا چہرہ انتہائی ظالمانہ طریقے سے مسخ ہو چکا تھا۔
جرمنی میں بہت سے شہر ملبے کے کھنڈرات بن چکے تھے۔ يہ وہ ملک ہے جو نہ صرف جنگ کے آغاز بلکہ حراستی کیمپوں میں نسلی جنونیت کے ذریعہ نسل کشی کا بھی ذمہ دار ہے۔ اور جرمن عوام! کیا اسے شکست یا آزاد ہونے کا احساس ہے؟
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے وفات پا چکے ٹاپ ليڈر ایگون باہر نے کہا تھا ’’آٹھ مئی کے فوراﹰ بعد، میں نے ذرا بھی خیال نہیں کیا کہ ہم آزاد ہوئے یا شکست کھا گئے۔ یقیناﹰ ہم شکست سے دوچار ہوگئے، یا، ہم آزاد ہوگئے۔ ہم دونوں تھے۔ لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم ابھی بھی زندہ تھے۔ یہی اہم بات تھی!‘‘
جنگ کے بعد بقا کی جدوجہد میں
بچ جانے والے بیشتر افراد سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے وفات پا چکے ٹاپ ليڈر ایگون باہر کی طرح سوچ سکتے ہیں۔ لیکن ان میں سے بے شمار افراد صدمے سے دوچار ہیں: زیادہ تر مرد جنگی کارروائیوں کے دوران ہونے والے ظلم کے سبب، آٹھ سے بیس لاکھ عورتیں ریپ ہونے کی وجہ سے، خاص طور پر سوویت فوجیوں کے ہاتھوں۔ آج ان کی حتمی تعداد کا تعین نہیں کیا جاسکتا ہے۔
تقریباﹰ چودہ ملین جرمن ملک کے مشرق اور مشرق وسطی حصے سے فرار یا نقل مکانی پر مجبور ہوگئے ۔ انہیں لرزيدہ جرمنی ميں ضم کرنا ہوگا۔ ایک ایسا تجربہ جس کا موازنہ عصرحاضر ميں مہاجرت کے موجودہ بحران سے بھی کیا جاسکتا ہے۔
سرد جنگ کا سنگ بنیاد
جرمنوں کے لیے سب سے خوفناک سوال یہ ہے کہ اتحادی طاقتیں ان کے ساتھ کیسے نپٹیں گی؟ تہران اور یالٹا میں اپنی کانفرنسوں میں، امریکا ، برطانیہ اور سوویت یونین نے اس بارے ميں مذاکرات کيے تھے کہ شکست خوردہ جرمنی سے کیسے نمٹا جائے۔ برلن کے قریب پوٹسڈام میں جولائی سن 1945 میں اپنی آخری کانفرنس میں، بالآخر وہ ایک معاہدے پر پہنچ گئے۔
تمام تر تحفظات کے باوجود نام نہاد ''بگ تھری‘‘ سابقہ دشمن کو دوبارہ عالمی برادری کا حصہ بننے کا موقع فراہم کرتے ہيں۔ اس سے قبل یہ تجویز بھی زير غور رہی کہ جرمنوں کو کسانوں کے طور پر رکھا جاۓ لیکن اسے رد کر دیا گیا۔
لیکن جرمنوں کو قیمت چکانا تھی۔ جرمنی کو معاوضے کی ادائیگی کرنا پڑی جو مقبوضہ زونز کے علاقوں میں تقسیم کيے گئے۔ ان زونز پر مشتمل مغرب میں 'فیڈرل ریپبلک آف جرمنی‘ اور مشرق ميں سوشلسٹ جرمن جمہوریہ 'جی ڈی آر‘ وجود ميں آئی جو سوویت یونین پر منحصر تھی۔
اسی وقت مغربی طاقتوں اور سوویت یونین کے مابین ، پوٹسڈام کانفرنس ''پاور پوکر‘‘ کے آغاز کی نشاندہی کرتی ہے۔ چند ہی سالوں میں سرد جنگ شروع ہوتی ہے۔ بڑھتے ہوئے تنازعہ کے پیش نظر ، 3 اپریل 1948ء کو امریکا مارشل پلان شروع کرتا ہے: مغربی جرمنی سمیت مغربی یورپ کے ليے چار سالہ ، بہت بڑا معاشی محرک پروگرام۔
آمریت سے جمہوریت تک
"1945ء سے 1949ء کے درمیان ، جرمنی کے ليے دو چیزیں خاص طور پر اہم تھیں۔ پہلے، جرمنوں کو شکست قبول کرنا پڑی، جو ان میں سے بہت سے لوگوں کے ليے مشکل تھی۔ دوسرے، انہیں بحیثیت قوم اور ایک سیاسی وجود کے ایک نئے طرز زندگی کی تیاری کرنا پڑی۔‘‘ یہ کہنا ہے مورخ اور صحافی فلوریان ہوبرکا۔ ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے نازی پروپیگينڈہ کے ذریعہ جرمن عوام کی برسوں کی جانے والی برین واشنگ کی طرف اشارہ کیا۔ انہیں اس بات کا یقین ہے کہ ''سرد جنگ کے تجربات نے جرمن عوام خاص طور پر مغربی جرمنی کے اندر مغربی دنیا سے تعلق قبول کرنے کے عمل کو آسان بنا دیا ۔‘‘ اس طرح جرمنوں کے ليے ''اس نئے جمہوری آئین کو اپنانا آسان بنا دیا جو آج بھی موجود ہے۔‘‘
برلن کے فریڈرش اشٹراسے پر ''چيک پوائنٹ چارلی‘‘ بارڈر کراسنگ مغربی برلن میں امریکی زون کی سرحد تھی۔
وفاقی جمہوریہ کی خارجہ پالیسی تعاون اور دوستانہ تعلقات کی بحالی کے لیے کوشاں ہے۔ عسکری پالیسی ميں ایک بنیادی تبدیلی۔ طویل بحث اور سخت شرائط پر رضامندی کے بعد بیرون ملک فوجی تعیناتی کی تجويز 1990ء ميں منظور ہوئی۔ ان دستوں کی بنیادی ذمہ داری رسد کی فراہمی تھی۔
وفاقی جمہوریہ جرمنی، جو بعد میں دوبارہ متحد ہوئی ، یورپی اتحاد کے ليے پرعزم ہے۔ ہولوکاسٹ اور اسرائیل کی سلامتی جیسے عوامل کو اپنی تاریخی ذمہ داری سمجھنا اس کی عقلی نظریے کا ایک اہم حصہ ہے۔ جرمنی بنیادی اقدار جیسے کے آزادی ، جمہوریت اور انسانی حقوق کے ليے پرعزم ہے۔
نئے قومی فخر کے تاریک پہلو
مقامی اور معاشرتی طور پر ، جرمنی اپنی نازی تاریخ کے سائے سے آہستہ آہستہ باہر آ رہا ہے۔ مغرب میں یہ سلسلہ 1960ء کی دہائی میں شروع ہوا۔ جنگ کے خاتمے کی کئی دہائیاں بعد بھی، زیادہ تر جرمن اپنے ملک پر فخر کرنے سے گريزاں ہیں۔ اس رویے ميں تبدیلی 1990ء میں جرمنی کے پُر امن اتحاد کے بعد آئی۔ آہستہ آہستہ جرمنوں نے اپنا تشخص اپنی قوم کے ساتھ کرنا شروع کیا۔ 2006ء کے فٹ بال ورلڈ کپ کے بعد سے ، جرمن اپنے دیش میں جوش وخروش کے ساتھ اپنا قومی پرچم لہرا رہے ہیں اور اعتماد کے ساتھ قومی ترانہ گا رہے ہیں۔
تاہم، ایک سروے کے مطابق ، دوسری جنگ عظیم اور نازی دور کے بارے میں عمومی معلومات کم ہوتی جارہی ہیں ، خاص کر نوجوانوں میں۔ لیکن ماضی کے آثار کبھی بھی مکمل طور پر نہیں مٹتے۔ اس کا ثبوت دائیں بازو کے انتہا پسند حملوں اور سرگرمیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد سے ہوتا ہے۔ متعدد سیاستدان دائیں بازو کی عوامی تحریک ''الٹرناٹیو فار ڈوئچلانڈ‘‘ (اے ايف ڈی) کو اس کا ذمہ دار سمجھتے ہیں۔
اے ایف ڈی ایسے الزامات کو مسترد کرتی ہے ، لیکن مستقل اشتعال انگيزی کرتی رہتی ہے۔ پارٹی کے سابق رہنما اور موجودہ اعزازی چیئرمین، الیگزانڈر گاؤلانڈ کی طرح ، جنہوں نے 2018 ء میں ایک ایسا جملہ کہا جو اب تک کا سب سے زیادہ دھرایا جانے والا جملہ ثابت ہوا: ''ہٹلر اور نازی ایک ہزار سال سے زیادہ کامیاب جرمن تاریخ میں دوسری عالمی جنگ کا محض ایک تاریک پہلو ہے‘‘۔
یاد رکھنے کی ثقافت کی جنگ
وفاقی جرمن صوبے تھیورنگیا کے اے ایف ڈی کے چیئرمین بیوم ہوؤکے نے جنوری 2017 ء میں برلن ہولوکاسٹ میموریل کو 'شرم کی ایک یادگار‘ قرار ديتے ہوۓ 'مقابلہ بازی کی احمقانہ پالیسی‘ کہا ۔ بظاہر اس سے پارٹی کو کوئی نقصان نہیں ہوا۔ برسوں سے وہ ووٹ حاصل کرتی رہی ہے - اگرچہ، یا شاید اس لیے کہ وہ جو کچھ کہہ سکتی ہے اس کی حدود کا یہ امتحان ہے۔ جرمن مورخ فلوریان ہوبر کہتے ہیں، ''ہمیں اچھی طرح اس امر کا ادراک ہونا چاہيے کہ اے ایف ڈی آج جرمن معاشرے کا ایک اہم حصہ ہے۔‘‘
اے ایف ڈی یہاں قائم رہنے کے ليے ہے۔ ''ہم یقیناﹰ ان لوگوں کے مابین ایک سخت اور طویل جدوجہد کا مشاہدہ کریں گے جو ہماری ماضی کی تعلیمات کو زندہ رکھنے پر اصرار کرتے ہیں اور جو جرمن تاریخ کے اس باب کو ہمیشہ کے لیے ختم کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
جرمن چانسلر انگیلا میرکل بھی اس دلیل سے واقف ہوں گی۔ 6 دسمبر ، 2019 ء کو انہوں نے ''یادوں کی ثقافت‘‘ پر ایک مؤقف اختیار کیا۔ ایک ایسی جگہ پر جو نازیوں کے جرائم کو ظاہر کرنے کی سب سے بڑی مثال ہے: آؤشوٹس، پولینڈ میں سابق جرمن حراستی کیمپ میں۔ وہاں کے اپنے پہلے دورے کے دوران میرکل نے وضاحتی بیان میں کہا: ''ہمیں کبھی بھی فراموش نہیں کرنا چاہيے۔ کبھی بھی وہ حد نہيں آسکتی نہ ہی اس ٹوٹ پھوٹ کو جوڑا جا سکتا ہے۔‘‘ انگیلا میرکل کے پیچھے عوام کی اکثريت ہے جو ايک سروے کے مطابق اپنے ملک کی تاریخ کو اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔