کچھ نہ کرنے کے ماہانہ تین لاکھ سترہ ہزار روپے حاصل کریں
جرمنی میں یونیورسٹی آف فائن آرٹس ہیمبرگ سولہ سو یورو ماہانہ (تین لاکھ سترہ ہزار روپے) کی ایک ایسی سکالرشپ فراہم کر رہی ہے، جس کے تحت طلبہ کو ‘’کچھ بھی نہیں کرنا‘‘۔
اس منصوبے سے متعلق یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ اسکالرشپ حاصل کرنے والے امیدواروں کو یہ بتانا ہو گا کہ وہ اس اسکالرشپ کے دوران کون سا کام کرنا چھوڑ دیں گے اور کتنے دورانیے تک اس کام کو چھوڑے رکھیں گے۔
کیا ہوتا ہے جب ہم کچھ نہیں کرتے؟
ایسا کرنے کا ہمارے ماحول، معاشرے یا صحت پر کیا اثر پڑتا ہے ؟ اس منصوبے کے بانی فریڈریش وان بوریس کا کہنا ہے کہ اس اسکالرشپ کے ذریعہ معاشرے میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے، ''ہمیں لوگوں کے رویوں کو تبدیل کرنا ہے، ہمیں بجائے درس دینے کہ خود مثال بننا ہو گا۔‘‘ ہمارے معاشرے میں اس بات پر توجہ دی جاتی ہے کہ کسی کا گھر کتنا بڑا ہے، کسی کی گاڑی کتنا تیز چلتی ہے؟ لیکن اگر ہم ایک ایسا ماحول چاہتے ہیں، جہاں توانائی کم استعمال ہو اور قدرتی وسائل کا ضیاع نہ ہو تو ہمیں اپنی ترجیحات کو تبدیل کرنا ہوگا۔‘‘
بوریس کے مطابق ''یہ کتنا اچھا ہو کہ ہم اس بات پر معاشرے میں اپنا مقام بڑھائیں کہ میرے پاس خواب دیکھنے کا وقت ہے، میں اپنے بچوں کے ساتھ تیراکی پر جاتا ہوں، میں دوستوں سے مل سکتا ہوں۔‘‘ بوریس اس بحث سے معاشرے میں تبدیلی لانے کا سوچ رہے ہیں۔
کم از کم آمدنی کو یقنی بنانا
جرمنی میں کافی عرصے سے یہ بحث جاری ہے کہ ایک بنیادی تنخواہ کے نظام کو رائج کیا جائے۔ لیکن لوگوں کی زندگیاں ماہانہ بارہ سو یورو کی یقینی آمدنی کے ساتھ کیسے تبدیل ہوں گی؟ ایک ایسی آمدنی جس کے لیے انہیں کچھ نہیں کرنا ہو گا۔ جرمنی کے مارکس پلانک انسٹیٹیوٹ فار دا اسٹڈی آف پبلک گڈز اور یونیورسٹی آف کولون بھی ایک تحقیق کے ذریعے اس سوال کی کھوج لگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگلے سال 2021ء اپریل میں اس تحقیق کا آغاز ہو گا۔ اس منصوبے میں شریک بیس افراد کو اگلے تین سال تک ماہانہ بارہ سو یورو رقم فراہم کی جائے گی۔ 'مائی بیسک انکم‘ ایسوسی ایشن کے بانی مائیکل بوہمئیر کا کہنا ہے،'' ہم یہ جاننا چاہتے ہیں کہ لوگوں کے رویے کیسے تبدیل ہوتے ہیں اور یہ کہ کیا بنیادی آمدنی ہمارے معاشرے کو درپیش چیلنجز کو حل کر سکتی ہے۔‘‘
اگر ایسا نظام رائج ہوا تو ہر کسی کو یہ بیسک انکم یا بنیادی آمدنی دی جائے گی چاہے وہ امیر ہو یا غریب، وہ بچہ ہو یا بوڑھا۔ اس پالیسی کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ بہت مہنگا پروگرام ہے اور یہ کہ بغیر کچھ کیے پیسے ملنے سے لوگوں میں کام کرنے اور تخلیقی ہونے کا جذبہ ختم ہو جائے گا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔