لپ اسٹک: ’محبت کے قلم‘ کے 138 برس مکمل

لپ اسٹک کی موجودہ شکل کو پہلی مرتبہ 138 برس پہلے متعارف کروایا گیا تھا۔ تب سے لپ اسٹک نے نہ صرف عورت کی ظاہری شکل کو تبدیل کیا ہے بلکہ اس کے معاشرتی کردار پر بھی اثر انداز ہوئی ہے۔

لپ اسٹک: ’محبت کے قلم‘  کے 138 برس مکمل
لپ اسٹک: ’محبت کے قلم‘ کے 138 برس مکمل
user

Dw

اس سے قطع نظر کہ ملک غریب ہو یا امیر، دنیا بھر میں خواتین میک اپ میں لِپ اسٹک کو خاص اہمیت دیتی ہیں اور یہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والا میک اپ کا آئٹم ہے۔ سن 1883ء میں پہلی مرتبہ لِپ اسٹک کی موجودہ شکل کو ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈیم میں ہونے والی ایک عالمی نمائش میں متعارف کروایا گیا تھا۔ ایمسٹرڈم کی نمائش کے چند ماہ بعد لِپ اسٹک کی تجارتی بنیاد پر دریافت میں پیرس کے خوشبو ساز ادارے کے دو ماہرینِ کاسمیٹک شامل تھے۔

سن 1884 میں یورپی ملک فرانس کے دارالحکومت پیرس میں پہلی مرتبہ لِپ اسٹک کو میک اپ کے ایک اہم جزو کے طور پر کمرشل انداز میں متعارف کروایا گیا تھا۔ شروع میں اس کو مشکوک نظروں سے دیکھا گیا اور اس کا استعمال صرف تھیٹر کی اداکارائیں، رقاصائیں اور جسم فروش خواتین کرتی تھیں۔


ایمسٹرڈم میں انیسویں صدی کی فرنچ اداکارہ سارا بیرنارٹ بھی موجود تھیں اور انہوں نے لِپ اسٹک والے پین کو 'محبت کا قلم‘ قرار دیا۔ ابتدا میں لِپ اسٹک نہ صرف مہنگی بلکہ ایک لگژری آئٹم تھی۔ عوامی سطح پر اس کو پذیرائی گزشتہ صدی میں بیس کی دہائی میں 'خاموش فلموں‘ کے دور میں ملی۔

سن 1893 میں ہی امریکا میں قائم ہونے والے فیش اسٹور سیئرز (Sears) کی فیشن کیٹلاگ میں بھی لِپ اسٹک کو شامل کیا گیا تھا۔ سن 1912 تک امریکا کی فیشن ایبل خواتین نے لِپ اسٹک کو قبول کر لیا تھا۔


یورپ میں فیشن ایبل خواتین نے امریکی خواتین کے لِپ اسٹک استعمال کرنے کے نو سال بعد اسے اپنانا شروع کیا تھا۔ سن 1921 ایک ایسا سال تھا جب اس وقت کے تجارتی اور سیاسی منظر پر اجارہ داری کے حامل ملک برطانیہ کے دارالحکومت لندن کی خواتین نے اسے پسند کرنا شروع کیا اور یہی اس کی عام مقبولیت کا باعث بنا۔ بیسیویں صدی کی پہلی چوتھائی کے دوران لندن فیشن کا گھر خیال کیا جاتا تھا۔

مارکیٹ ریسرچ فرم مِنٹل کی ایک نئی تحقیق کے مطابق سولہ سے چوبیس سال کے درمیان 48 فیصد خواتین لپ اسٹک کو انتہائی زیادہ پسند کرتی ہیں جبکہ ان کی فروخت میں سالانہ بنیادوں پر دس فیصد سے زائد اضافہ ہو رہا ہے۔ جرمن اخبار 'ہانڈلز بلاٹ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ دور میں سیلفی کے رجحان کی وجہ سے بھی لپ اسٹک اور میک اپ کے استعمال میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار گیارہ سے سن دو ہزار سولہ تک میک اپ کی فروخت میں 53 ارب یورو کا اضافہ ہوا ہے۔


مشہور ویب سائٹ 'سٹاٹیسٹا‘ کے اعداد وشمار کے مطابق سن دو ہزار اٹھارہ میں دنیا کی سات بڑی مارکیٹوں میں تقریبا 266 ارب یورو مالیت کا میک اپ فروخت ہوا۔ ان میں یورپ 78.6 ارب کے ساتھ سرفہرست ہے۔ آج کل لِپ اسٹک کے تیز رنگ متعارف کروائے جا رہے ہیں اور ان میں سرخ رنگ خاص طور پر اہم ہے۔ فیشن ایکسپرٹ رینے کوخ کے مطابق یہ خواتین میں اعتماد اور کامیابی کی علامت ہے۔

ہزاروں سال پہلے قدیمی مصری تہذیب میں فراعین کی ملکائیں بھی ہونٹوں پر سرخ رنگ کا استعمال کرتی تھیں۔ ان میں قلو پطرہ اور نفراتیتی بھی شامل ہیں۔ اس وقت سرخ رنگ کو چھوٹی چھوٹی ڈبیوں میں محفوظ رکھا جاتا تھا اور انگلی یا پھر برش کی مدد سے ہونٹوں پر لگایا جاتا تھا۔ اس وقت یہ عقیدہ تھا کہ ہونٹوں پر رنگ لگانے سے شیطانی قوتیں انسان کے جسم میں نہیں گھس سکتیں۔


قدیم یونانی دور میں جسم فروش خواتین ہونٹوں کو سرخ کیا کرتی تھیں۔ رومن سلطنت کی امراء خود کو غریب عوام سے الگ تھلک رکھنے کے لیے ہونٹوں پر سرخ رنگ کیا کرتے تھے۔ اسی طرح سولہویں صدی میں انگلستان میں سفید پاوڈر سے چہرے کو سفید اور سرخ رنگ سے ہونٹ رنگنا اشرافیہ طبقے کا معروف فیشن تھا۔ تاریخ میں چہرے پر سرخ رنگ کا استعمال مختلف طریقوں سے ہوتا رہا ہے۔ پہلے امریکی صدر جارج واشنگٹن بھی چہرے پر سرخ رنگ کا استعمال کرتے تھے۔

عام طور پر ایک لپ اسٹک کا 60 فیصد حصہ موم اور تیس فیصد مختلف آئلز پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں مختلف خوشبوئیں، رنگ اور کبھی کبھار سیلیکون بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ لپ اسٹک میں استعمال ہونے والا رنگ 'کوکی نیل‘ نامی چھوٹے چھوٹے کیڑوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ میکسیکو میں پائے جانے والے ان کیڑوں کو خشک کر کے قرمزی رنگ بنایا جاتا ہے۔


سن 1884 میں یورپی ملک فرانس کے دارالحکومت پیرس میں پہلی مرتبہ لِپ اسٹک کو میک اپ کے ایک اہم جزو کے طور پر کمرشل انداز میں متعارف کروایا گیا تھا۔ شروع میں اس کو مشکوک نظروں سے دیکھا گیا اور اس کا استعمال صرف تھیٹر کی اداکارائیں، رقاصائیں اور جسم فروش خواتین کرتی تھیں۔

ایمسٹرڈم میں انیسویں صدی کی فرنچ اداکارہ سارا بیرنارٹ بھی موجود تھیں اور انہوں نے لِپ اسٹک والے پین کو 'محبت کا قلم‘ قرار دیا۔ ابتدا میں لِپ اسٹک نہ صرف مہنگی بلکہ ایک لگژری آئٹم تھی۔ عوامی سطح پر اس کو پذیرائی گزشتہ صدی میں بیس کی دہائی میں 'خاموش فلموں‘ کے دور میں ملی۔


سن 1893 میں ہی امریکا میں قائم ہونے والے فیش اسٹور سیئرز (Sears) کی فیشن کیٹلاگ میں بھی لِپ اسٹک کو شامل کیا گیا تھا۔ سن 1912 تک امریکا کی فیشن ایبل خواتین نے لِپ اسٹک کو قبول کر لیا تھا۔ یورپ میں فیشن ایبل خواتین نے امریکی خواتین کے لِپ اسٹک استعمال کرنے کے نو سال بعد اسے اپنانا شروع کیا تھا۔ سن 1921 ایک ایسا سال تھا جب اس وقت کے تجارتی اور سیاسی منظر پر اجارہ داری کے حامل ملک برطانیہ کے دارالحکومت لندن کی خواتین نے اسے پسند کرنا شروع کیا اور یہی اس کی عام مقبولیت کا باعث بنا۔ بیسیویں صدی کی پہلی چوتھائی کے دوران لندن فیشن کا گھر خیال کیا جاتا تھا۔

میک اپ کی فروخت اور اربوں کی کمائی

مارکیٹ ریسرچ فرم مِنٹل کی ایک نئی تحقیق کے مطابق سولہ سے چوبیس سال کے درمیان 48 فیصد خواتین لپ اسٹک کو انتہائی زیادہ پسند کرتی ہیں جبکہ ان کی فروخت میں سالانہ بنیادوں پر دس فیصد سے زائد اضافہ ہو رہا ہے۔ جرمن اخبار 'ہانڈلز بلاٹ‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق موجودہ دور میں سیلفی کے رجحان کی وجہ سے بھی لپ اسٹک اور میک اپ کے استعمال میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق سن دو ہزار گیارہ سے سن دو ہزار سولہ تک میک اپ کی فروخت میں 53 ارب یورو کا اضافہ ہوا ہے۔


مشہور ویب سائٹ 'سٹاٹیسٹا‘ کے اعداد وشمار کے مطابق سن دو ہزار اٹھارہ میں دنیا کی سات بڑی مارکیٹوں میں تقریبا 266 ارب یورو مالیت کا میک اپ فروخت ہوا۔ ان میں یورپ 78.6 ارب کے ساتھ سرفہرست ہے۔ آج کل لِپ اسٹک کے تیز رنگ متعارف کروائے جا رہے ہیں اور ان میں سرخ رنگ خاص طور پر اہم ہے۔ فیشن ایکسپرٹ رینے کوخ کے مطابق یہ خواتین میں اعتماد اور کامیابی کی علامت ہے۔

سرخ لپ اسٹک کی قدیم روایات

ہزاروں سال پہلے قدیمی مصری تہذیب میں فراعین کی ملکائیں بھی ہونٹوں پر سرخ رنگ کا استعمال کرتی تھیں۔ ان میں قلو پطرہ اور نفراتیتی بھی شامل ہیں۔ اس وقت سرخ رنگ کو چھوٹی چھوٹی ڈبیوں میں محفوظ رکھا جاتا تھا اور انگلی یا پھر برش کی مدد سے ہونٹوں پر لگایا جاتا تھا۔ اس وقت یہ عقیدہ تھا کہ ہونٹوں پر رنگ لگانے سے شیطانی قوتیں انسان کے جسم میں نہیں گھس سکتیں۔


قدیم یونانی دور میں جسم فروش خواتین ہونٹوں کو سرخ کیا کرتی تھیں۔ رومن سلطنت کی امراء خود کو غریب عوام سے الگ تھلک رکھنے کے لیے ہونٹوں پر سرخ رنگ کیا کرتے تھے۔ اسی طرح سولہویں صدی میں انگلستان میں سفید پاوڈر سے چہرے کو سفید اور سرخ رنگ سے ہونٹ رنگنا اشرافیہ طبقے کا معروف فیشن تھا۔ تاریخ میں چہرے پر سرخ رنگ کا استعمال مختلف طریقوں سے ہوتا رہا ہے۔ پہلے امریکی صدر جارج واشنگٹن بھی چہرے پر سرخ رنگ کا استعمال کرتے تھے۔

لپ اسٹک کیسے بنتی ہے؟

عام طور پر ایک لپ اسٹک کا 60 فیصد حصہ موم اور تیس فیصد مختلف آئلز پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں مختلف خوشبوئیں، رنگ اور کبھی کبھار سیلیکون بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ لپ اسٹک میں استعمال ہونے والا رنگ 'کوکی نیل‘ نامی چھوٹے چھوٹے کیڑوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔ میکسیکو میں پائے جانے والے ان کیڑوں کو خشک کر کے قرمزی رنگ بنایا جاتا ہے۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 23 Sep 2019, 5:21 AM