’سچ بتاؤں‘، سنئے ضیا رضوی کی دل کی آواز
میں آج تہہ دل سے اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ بچپن سے یوم آزادی پر میرا دل بلیوں اچھلنے لگ جاتا تھا۔ لڑکپن میں شاید اس کا سبب اسکول میں اس موقع پر ہونے والی ’مارچ پاسٹ ‘ اس کے ساتھ اس روز بٹنے والی مٹھائی اور لاؤڈاسپیکر پر بجنے والے گانوں کا شور شرابا رہا ہو۔
ہمارے شہر الہ آباد کے محلے حسن منزل میں گلزار حلوائی بڑی عقیدت سے اپنے مکان کی بلندی پر لاؤڈاسپیکر لگوا دیتا تھا اور صبح ہوتے ہی اس لاؤڈاسپیکر سے محمد رفیع اور مکیش کے قومی بھگتی والے گانے بجنے شروع ہو جاتے تھے جن کے شور سے محلہ گونج اٹھتا تھا۔اور بس دل میں ایک عجیب خوشی کا جذبہ دوڑنے لگتا تھا۔
میں سچ بتاؤں ، اس سال یوم آزادی پرمیرے دل میں ایسا کوئی جذبہ نہیں پیدا ہوا۔ میرے دل میں کسی قسم کا ولولہ نہیں اٹھا جیسا کہ اس موقع پر ہر سال اٹھا کرتا تھا۔ حالانکہ فیس بک اور تمام سوشل میڈیا اس یوم آزادی کے روز قومی جذبہ سے سر شار تھا۔
مجھے اپنی ہندوستانیت پر فخر ہے اور میں یہ بھی عرض کر دوں کہ میرا جنم بطور ایک ہندوستانی ہوا تھا اور میں بطور ہندوستانی ہی مروں گا۔
ہر دن ہر لمحے میں اس بات پر شکر ادا کرتا ہوں کہ میں اس عظیم الشان ملک میں پیدا ہوا۔ میں اس بات کا بھی شکر گزار ہوں کہ میرے دادا اور میرے والد نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ بٹوارے کے بعد یہیں رہیں گیں اور ہندوستانی ہی رہیں گیں۔
کبھی بھی ایک لمحے کے لئے بھی اس رنگا رنگ ملک کی عالیشان وراثت پر مجھے کوئی شک نہیں ہوا۔ بھلا ہوتا بھی کیوں جب کہ یہ وراثت اس قدر عظیم الشان اور اتنی وسیع ہے کہ اس کے دامن میں سب کچھ سما جاتا ہے۔ ارے اس عظیم الشان ملک میں کون سا عقیدہ ہے اور کون سا نظریہ ہے جو یہاں پنپ نہیں رہا ہے۔ بھلا ایسے ملک پر کون فخر نہیں کرے گا۔
اس ملک کی گنگا -جمنی تہذیب میں ہر سو کلو میٹر پر لب و لہجہ بدل جاتا ہے۔ ایک خطے سے دوسرے خطے کی زبان فرق ہو جاتی ہے، ہمارا کلچر اور ہمارا طرز زندگی بدل جاتا ہے، لیکن اتنی تبدیلیوں کے با وجود ہم ایک ہیں اور اسی سبب مجھ کو اپنے ہندوستانی ہونے پر ناز ہے۔ ارے تب ہی تو نہرو نے کہا تھا ’مختلف رنگوں میں یک رنگیت ‘اوریہی ہندوستان کی حقیقت بھی ہے۔
ان دنوں جو نفرت کا سیلاب ہے اور موب لنچنگ جیسے واقعات ہو رہے ہیں ، ان سے بھی میں کوئی ایسا پریشان نہیں ہوں کیو نکہ اس ملک کی تاریخ نے مجھے ایک الگ ہی فکر دی ہے۔ نفرت کے پجاریوں کی اس ملک میں ہمیشہ آخر شکست ہی ہوئی ہے۔انگریز گئے کے نہیں ،اور یہ سوچ کر گئے کہ ان کے بغیر یہ ملک آپسی جھگڑوں کے بوجھ تلے ٹوٹ جائے گا۔لیکن طرح طرح کی سازشوں کے با وجود ہم ہندوستانی 71 برسوں بعد بھی بر قرار ہیں اور پہلے سے کہیں شان سے جی رہے ہیں۔
مجھے اپنے ہندوستانی ہونے پر اس لئے بھی ناز ہے کہ ہمیں آج تک کوئی طاقت توڑ نہیں سکی ،جھکا نہیں سکی کیو نکہ ہماری وراثت اس قدر شاندار ہے۔ میں ایک اور بات یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس ملک کی شاندار وراثت ہی اس ملک کی تقدیر سنوارتی رہے گی خواہ حاکم وقت کوئی بھی ہو۔سچ تو یہ ہے حاکم آئیں گے اور جائیں گے لیکن یہ ملک اپنی شان و شوکت کے ساتھ قائم رہے گا۔
میں نے آج تک اپنی ہندوستانیت کا سودا ڈالر یا پاؤنڈ میں کبھی نہیں کیا ۔ بلکہ مجھے تو ان پر حیر ت ہوتی ہے جو ’مستقبل‘ کے بہانے اپنے وطن کو چھوڑ کر ودیسی ہو جا تے ہیں ۔ بھلا وہ جو یہاں پیدا ہوا اور یہاں پروان چڑھا وہ ہندوستان چھوڑ کر کسی اور ملک کو اپنی کرم بھومی کیسےبنا سکتا ہے۔
اس یوم آزادی پر ایک بارپھر مہاتما گاندھی ، جواہر لال نہرو اور تمام مجاہدین آزادی کو بصد عزت و احترام میرا سلام اور تہہ دل سے ہندوستان کی بقا کے لئے دعائیں۔
یہ میرا ہندوستان تھا، میرا ہندوستان ہے اور میرا ہندوستان رہے گا!
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔