ایک مہینے میں دنیا بدل گئی، اس پیغام کو سمجھنے کی ضرورت... سید خرم رضا
کورونا نے ہر مذہب کی بنیادیں ہلا دی ہیں اور نتیجے میں تمام عبادت گاہیں بند کر دی گئی ہیں، اس نے مذہبی تفریق کو پوری طرح ختم کر دیا ہے۔ اس بیماری کے سامنے نہ تو کوئی ہندو رہا اور نہ کوئی مسلمان۔
ایک ماہ میں حالات اتنی تیزی سے بدلیں گے کسی کو یقین نہیں تھا اور اگر ان بدلے ہوئے حالات سے بھی کوئی سبق نہ لے تو پھر سبق نہ لینے والے کا کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ ویسے تو جس دن سے نریندر مودی کی قیادت میں این ڈی اے حکومت نے مکمل اکثریت کے ساتھ مرکز میں اقتدار سنبھالا تھا اس دن سے پورا سماج مودی حامی اور مودی مخالفین میں بری طرح تقسیم ہو گیا تھا اور حکومت نے بھی کوئی ایسی کوشش نہیں کی جس سے اس تقسیم کو پاٹا جا سکے یا کم کیا جا سکے۔
این ڈی اے کے پہلے پانچ سال میں جہاں لنچنگ کے خوب واقعات سامنے آئے اور معصوم اخلاق اور پہلو خان جیسے لوگوں کو گائے کی حفاظت کے نام پر تشدد کا نشانہ بنا کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اسی بیچ طلاق ثلاثہ کو ختم کرنے اور ایک بار میں تین طلاق دینے والے عمل کو مجرمانہ فعل قرار دینے والا بل لانے سے حکومت نے واضح کر دیا کہ اس کی ترجیحات اچھی حکومت کرنا نہیں ہے بلکہ سماج میں موجود فرقہ وارانہ تقسیم کو مزید ہوا دینا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ حکومت کے اس عمل سے مسلمان بالخصوص مسلم خواتین کو زبردست فائدہ ہوا اور ملک کے اکثریتی طبقہ کو رتی برابر بھی فائدہ نہیں ہوا، مگر یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ حکومت مسلمانوں پر سختی کر رہی ہے۔
سال 2019 میں دوبارہ پہلے سے زیادہ سیٹوں کے ساتھ اقتدار میں آنے کے بعد طلاق ثلاثہ بل کو منظور کرایا اور پھر شہریت ترمیمی قانون بل لاکر اور این آر سی کا پارلیمنٹ میں اعلان کر کے ایک مرتبہ پھر ملک کے اکثریتی طبقہ کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی کہ حکومت ملک کے مسلمانوں کو صحیح کر دے گی۔ شہریت ترمیمی قانون کی پورے ہندوستان میں مخالفت ہوئی، کہیں پر یہ مخالفت پرتشدد بھی ہو گئی اور کئی قیمتی جانیں بھی گئیں۔ اس کے بعد ہندوستان کی آزاد خیال خواتین نے ایک منفرد انداز میں اس قانون کے خلاف پرامن مظاہرہ شروع کیا جس میں زبردست حب الوطنی کا مظاہرہ کیا گیا۔ عالمی شہرت یافتہ شاہین باغ مظاہرہ کو تین ماہ سے زیادہ ہو گئے ہیں۔ اس بیچ دہلی کے انتخابات بھی ہوئے اور اس کے بعد فرقہ وارانہ دنگے بھی ہوئے لیکن حکومت نے ان مظاہرین کو الگ تھلگ کر کے ان سے بات کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی اور ان کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا جیسے کورونا وائرس کے مریض کے ساتھ کیا جاتا ہے یعنی مریض سے کوئی نہ ملے۔
ایک مہینے پہلے 22 فروری کی رات سے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ہونے والے مظاہرہ نے ایک نیا رنگ لینا شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے 23 فروری سے لے کر 26 فروری تک ملک کی راجدھانی دہلی میں فرقہ وارانہ دنگوں کا ننگا ناچ شروع ہو گیا۔ ان دنگوں میں مذہب کی بنیاد پر سماج پوری طرح تقسیم نظر آیا اور اس کے بعد پولیس اور دنگوں کو لے کر تبصرہ شروع ہو گئے۔
اس بیچ جب پورے ملک میں ہندو اور مسلمان کی بات ہو رہی تھی اس وقت دھیرے دھیرے ایک خبر آنی شروع ہوئی کہ چین میں کورونا وائرس پھیل رہا جس سے بڑی تعداد میں اموات ہو رہی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ خبر اتنی بڑی ہو گئی کہ آج اس کے علاوہ کسی اور بات کا کوئی ذکر نہیں ہو رہا ہے۔ یہ وبائی بیماری جس نے ہر مذہب کی بنیادیں ہلا دی ہیں اور نتیجے میں تمام عبادت گاہیں بند کر دی گئی ہیں، اس نے مذہبی تفریق کو پوری طرح ختم کر دیا ہے۔ اس بیماری کے سامنے نہ تو کوئی ہندو رہا اور نہ کوئی مسلمان۔ یہ بیماری کسی خاص طبقہ یا مذہب کے خلاف نہیں ہے، اس کی زد میں تو سب ہیں۔
ابھی تو یہ وبائی بیماری ہمارے ملک میں ابتدائی مرحلہ میں ہے اور خدا نخواستہ اگر اس نے خراب شکل اختیار کر لی تو پھر اللہ ہی حافظ ہے۔ اس بیماری میں ہمارے ان مذہبی شدت پسندوں کے لئے ایک کھلا پیغام ہے کہ ہم کو ہر حال میں ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنا چاہیے اور مذہبی، رنگ اور ذات کی بنیاد پر کبھی کسی کو کم تر یا کسی کو اعلی نہیں سمجھنا چاہیے۔ ہم جو بھی کریں انسانیت کے لئے کریں۔ پوری دنیا کے لئے یہ بیماری ایک پیغام ہے اور اگر ہم نے اس پیغام کو نہیں سمجھا تو ہمارا کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔