سعودی عربیہ: محمد بن سلمان کی قیادت میں آزادیٔ نسواں کی لہر
عورتوں کی یہ آزادی محض فٹ بال اسٹیڈیم تک محدود نہیں رہے گی۔ اسی سال جون کے مہینے میں سعودی عورتیں کار چلانے لگیں گی اور پچھلے چند ماہ میں سعودی حکومت نے عورتوں کو کلیدی مقام پر نامزد بھی کیا ہے۔
بدل گیا سعودی عربیہ! جی ہاں، 12 جنوری بروز جمعہ سرزمین رسول کریم اس وقت ایک انقلاب بپا ہو گیا جب حالیہ تاریخ میں سعودی عورتیں پہلی بار فٹ بال اسٹیڈیم میں داخل ہوئیں اور اپنی اپنی ٹیم کو انھوں نے ’چیئر‘ کیا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ اس سعودی عرب میں کہ جہاں عورت کا سایہ بھی کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا اس سعودی عربیہ میں اس فٹ بال اسٹیڈیم میں عورتوں کے ساتھ ساتھ مرد بھی موجود تھے۔
یہ ایک سماجی تبدیلی ہے جو کسی انقلاب سے کم نہیں ہے۔ عورتوں کی یہ آزادی محض فٹ بال اسٹیڈیم تک محدود نہیں رہے گی۔ اسی سال جون کے مہینے میں سعودی عورتیں کار چلانے لگیں گی۔ پھر پچھلے چند ماہ میں سعودی حکومت نے عورتوں کو کلیدی مقام پر نامزد کیا ہے۔
الغرض سعودی عربیہ میں آزادیٔ نسواں کی ایک لہر شروع ہو چکی ہے جو اب روکے نہیں رک سکتی ہے اور اس کا سہرا اگر کسی کے سر جاتا ہے تو اس کا نام شہزادہ محمد بن سلمان ہے جو سعودی عرب کے اگلے بادشاہ ہوں گے۔
شہزادہ محمد بن سلمان ایک ترقی پسند حاکم ہیں جو محض آزادی نسواں میں ہی یقین نہیں رکھتے بلکہ وہ سعودی عربیہ کو ایک جدید ریاست کی شکل میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ انھوں نے شاہی خاندان پر پابندیاں عائد کر ملک سے بدعنوانی ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے۔ شہزادہ محمد سعودی معیشت کو کنٹرولڈ ایکونومی کی قید سے نکال کر مارکیٹ ایکونومی میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ وہ سعودی نوجوانوں کے لیے نت نئے روزگار کے مواقع فراہم کرنے میں مشغول ہیں۔ اور اسی طرح آزادی نسواں بھی ان کا ایک اہم مقصد ہے۔ صرف اتنا ہی نہیں کہ تمام باتیں محض شہزادہ محمد کی بصیرت کا حصہ ہیں بلکہ وہ ان تمام مسائل پر تیزی سے کام بھی شروع کر چکے ہیں۔
یہ وہ تبدیلیاں ہیں جو سعودی سوسائٹی کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بدل دیں گیں۔ سعودی سماج میں جو علماء کی گرفت تھی وہ آہستہ آہستہ کمزور ہوتی جائے گی اور سعودی سماج میں تیزی سے ایک کھلاپن پیدا ہوتا جائے گا۔ وہ سعودی عورت جو کل تک محرم کے بغیر گھر سے باہر پاؤں نہیں نکال سکتی تھی، وہی سعودی عورت آہستہ آہستہ زندگی کے تمام شعبوں میں نمائندہ کردار نبھاتی نظر آئے گی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سعودی عرب عالم اسلام کا مرکز ہے۔ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی یہ سرزمین تمام عالم اسلام کے لیے اسٹینڈرڈ طے کرتی ہے۔ اس لیے سعودی عرب میں اگر کوئی تبدیلی آتی ہے تو وہ تبدیلی جلد ہی تمام عالم اسلام میں بھی نظر آتی ہے۔ اس اعتبار سے سعودی عربیہ میں آزادیٔ نسواں کی جو تحریک شروع ہوئی ہےوہ تمام اہل اسلام کو اثرانداز کرے گی۔ جلد ہی یہ تبدیلی تمام اسلامی دنیا کی عورتوں کے لیے پیغام آزادی لے کر آئے گی۔
بھلا اسلامی معاشرے میں آزادیٔ نسواں نہ ہو تو پھر اور کہاں ہوگی! اسلام دنیا کا وہ پہلا نظام ہے جس نے انسانیت کو صنفی حقوق اور آزادیٔ نسواں کا تصور دیا۔ رسولؐ کی مسجد کے دروازے عورتوں کے لیے کھلے تھے۔ خود رسولؐ کی پہلی زوجہ مکہ کی ایک ایسی آزاد عورت تھیں جو خود مشہور و معروف تاجر تھیں۔ اور تو اور رسول کی زندگی میں کوئی ایسی جنگ نہیں ہوئی جس میں رسول امہات مومنین سمیت مدینہ کی تمام عورتوں کو محاذ جنگ پر نہیں لے جاتے ہوں۔ پھر قرآن مجید وہ کتاب ہے جس نے عورت کو حق خلع دیا۔ اسی قرآن نے عورت کو خاندان کی مال و دولت میں حصہ دیا۔ یعنی اسلام نے عورت کی دینی آزادی سے لے کر معاشی آزادی تک حقوق نسواں کا ایک جامع پیغام دیا جو اس سے قبل اتنے منظم طریقے سے دیکھنے کو کہیں اورنہیں ملتا ہے۔
افسوس کہ خلفائے راشدین کے دور کے بعد جیسے جیسے مسلم معاشرہ ایک مسلم شاہی نظام میں تبدیل ہوتا چلا گیا ویسے ویسے عالم اسلام پر زمیندارانہ اور قبائلی قدریں پھر سے حاوی ہوتی چلی گئیں۔ زمیندارانہ نظام میں عورت کی زندگی گھر کی چہار دیواری تک محدود ہوتی ہے۔ چنانچہ زمیندارانہ مسلم سماج میں مسلم عورت بھی گھر تک قید ہو گئی اور اس کو شریعت کا رنگ بھی دے دیا گیا۔
لیکن آج کی تیز رفتار زندگی کے تقاضوں میں زمیندارانہ قدریں بے معنی ہوتی جا رہی ہیں۔ آج اس آئی ٹی اور روبوٹ کے دور میں عورت کو گھر کی قید میں بند نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ شہزادہ محمد بن سلمان کو نہ صرف اس بات کا احساس ہے بلکہ ان میں یہ جرأت بھی ہے کہ وہ روایت کی زنجیروں کو توڑ کر نئی روایت قائم کر سکتے ہیں۔ تب ہی تو شہزادہ محمد بن سلمان کی قیادت میں سعودی عورت آزادی کی ایک نئی روایت قائم کر رہی ہے۔ اس کو دوبارہ وہ حق مل رہا ہے جو قرآن نے اس کو عطا کیا تھا لیکن وہ اس سے محروم ہو گئی تھی۔
Follow us: Facebook, Twitter, Google News
قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔
Published: 14 Jan 2018, 2:28 PM