کیا فائدہ ایسی ترقی کا؟

کیا غریبوں کو جینے کا کوئی حق نہیں ہے؟ کب حکومتیں غریبوں کے بارے میں سوچیں گی؟ کیا غریبوں کو ایسے ہی مرنے دیا جاتا رہے گا؟ ہم ترقی کر رہے ہیں یا پستی کی طرف گامزن ہیں؟

تصویر سوشل میڈیا
تصویر سوشل میڈیا
user

قومی آواز تجزیہ

جھارکنڈ سے خبر آتی ہے کہ راشن کارڈ کے آدھار سے لنک نہ ہونے کی وجہ سے ایک خاندان کو راشن نہیں ملتا اور راشن نہ ملنے کی وجہ سے اس گھر میں بھوک سے سسک سسک کر ایک بچی دم توڑ دیتی ہے ۔گزشتہ ہفتہ اتر پردیش کے بریلی ضلع سے خبر آتی ہے کہ ایک بزرگ خاتون اس لئے اس دنیا سے چل بسیں کیونکہ راشن لینے کے لئے ان کو راشن کی دکان پر جا کر فنگر پرنٹس لگانے تھے اور ان کی صحت اس بات کی اجازت نہیں دے رہی تھی کہ ان کو وہاں لے جایا جا سکے ۔ وہ راشن کی دکان جا نہیں سکیں اس لئے ان کو راشن نہیں ملا اور راشن نہیں ملا تو ان کو اس دنیا سے جانا پڑا۔ یہ کیا مذاق ہے غریبوں کے ساتھ۔

ترقی کے اس دور میں جہاں آپ اپنے پیچھے بیٹھے شخص سے جتنے وقت میں بات کر لیتے ہیں اتنے ہی وقت میں دنیا کے کسی بھی کونے میں بیٹھے شخص سے بات کر سکتے ہیں اورصرف آپ بات ہی نہیں کر سکتے بلکہ آپ ویڈیو چیٹ بھی کر سکتے ہیں جس میں آپ ایک دوسرے کی تصویر بھی دیکھ سکتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آمنے سامنے بیٹھ کر بات ہو رہی ہو ۔ سال بھر کیسا موسم رہنے والا ہے آپ پہلے سے جان سکتے ہیں ۔ اس سب کے بیچ اگر ایسی خبر آئے کہ کوئی شخص راشن نہ ملنے کی وجہ سے مر جائے تو پھر یہ ساری ترقی بے معنی ہے اور تمام روشنی کے باوجود اندھیرا ہی اندھیرا ہے ۔ حقیقت میں ایسی ترقی نہیں چاہئے ۔ ترقی جب ہی اچھی اور فائدمند ہے جب سماج کے ہر فرد کو عزت کے ساتھ دو روٹی میسر ہو سکے۔

گزشتہ کئ سالوں سے غریب کے بارے میں حکومتوں نے سوچنا ہی بند کر دیا ہے ۔ موجودہ حکومتیں اب صرف اور صرف سرمایہ داروں کے بارے میں سوچتی ہیں اور چاروں طرف سے ان کے ہی لوگوں سے گھری رہتی ہے ۔ اقتدار کے گلیاروں میں اب سرکاری ملازمین کے علاوہ کوئی عام آدمی نظر نہیں آتا بلکہ وہاں صرف ان سرما یہ داروں کے ایجنٹ اور بڑی گاڑیوں میں آنےوالے دلال گھومتے دکھائی دیتے ہیں ۔

یہ بات عام ہے کہ خوراک و رسد کے محکمے میں زبر دست بدعنوانی رہی ہے اور ہے۔ اوپر سے لے کر راشن کے دوکاندار تک بڑی دھنادلی ہے ۔ اس کو روکنے کے لئے کئی اقدامات اٹھائے گئے جن میں سے بایئومیٹرک نظام سے راشن کی ترسیل کو جوڑنا بھی ایک ہے ۔ ادھر حکومت نے کئی مرتبہ اس پر بھی غور کیا ہے کہ راشن کی دوکان سے راشن دینا بند کر کے ہر راشن کارڈ ہولڈر کو اس کے اکاؤنٹ میں جتنی رقم کا راشن دیا جاتا ہے اتنی رقم اس کے کھاتے میں منتقل کر دی جائے اور یہ رقم گھر کی خاتون کے اکاؤنٹ کے کھاتے میں منتقل کی جائے ۔ یہ سوچ کر غریب خاندان میں کہیں یہ پیسہ شراب نوشی کی نذرنہ ہو جائے اور کم از کم راشن تو غریب کو ملے تاکہ بچے بھوکے نہ مریں اس کو لاگو نہیں کیا گیا ۔حقیقت یہ ہے کہ راشن سپلائی سے لے کر گراہک تک پہنچنے میں ہر قدم پر بدعنوانی نظر آتی ہے ۔ سپلائی کے لیول پر کوشش یہ ہے کہ سستا اور خراب مال زیادہ قیمت میں حکموت خرید لے اور نیچے یعنی دوکاندار کے لیول پر دوکان دار کی کوشش یہ ہے کہ لوگ راشن نہ لے سکیں اور آیا ہوئے مال کی کالا بازاری کی جا سکے ۔ اس لئے دوکاندار ہر وہ ہتھکنڈا استعمال کرتا ہے جس سے کم سے کم راشن تقسیم ہو۔ ترقی کے اس دور میں حکومت کو چاہئے ایسی پالیسی مرتب کرے کہ بدعنوانی بھی رک جائے اور مستحق تک راشن بھی پہنچ جائے ۔

حکومت کب تک صرف امیروں کے ہی بارے میں سوچتی رہے گی ۔حکومت اس سوچ سے باہر آئے کہ امیروں کے دم پر ہی وہ اقتدار حاصل کر سکتی ہے اس لئے حکومت کو چاہئے کہ وہ ہر ممکن اقدام اٹھائے جس سے یہ بھوک سے مرنے کا سلسلہ بند ہو ۔ یہ کسی بھی سماج کے لئے انتہائی شرم کی بات ہے کہ کسی بھی تکنیکی وجہ سے غریب کو راشن نہ ملے اور راشن نہ ملنے کی وجہ سے غریب اپنی زندگی گنوا دے۔

اپنی خبریں ارسال کرنے کے لیے ہمارے ای میل پتہ contact@qaumiawaz.com کا استعمال کریں۔ ساتھ ہی ہمیں اپنے نیک مشوروں سے بھی نوازیں۔

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔