پریم چند گائے، گائے کا گوشت اور سماج کے علاوہ نیشنلزم سے متعلق کیا نظریہ رکھتے تھے؟

پریم چند اپنے دور کے سماجی و سیاسی حالات کو ہمیشہ اپنی تحریروں کا حصہ بناتے رہے، انھوں نے ان سبھی موضوعات پر اپنی قلم چلائی جسے سیاستداں اپنے مفاد کے لیے استعمال کر رہے تھے یا آج بھی کر رہے ہیں۔

<div class="paragraphs"><p>پریم چند، تصویر سوشل میڈیا</p></div>

پریم چند، تصویر سوشل میڈیا

user

قومی آواز بیورو

گائے، گوشت اور سماج:

ہندوستان زراعت کا ملک ہے اور یہاں گائے کو جتنی اہمیت دی جائے اتنا کم ہے۔ لیکن آج قول و قرار لیا جائے تو بہت کم راجے مہاراجے یا بیرون ممالک میں تعلیم حاصل کرنے والے ہندو نکلیں گے جو گائے کا گوشت نہ کھا چکے ہوں۔ اور ان میں سے کتنے ہی آج ہمارے لیڈر ہیں اور ہم ان کے لیے نعرے لگاتے ہیں۔ اچھوت ذاتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی گائے کا گوشت کھاتے ہیں اور آج ہم ان کو آگے بڑھانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔ ہم نے ان کے مندروں میں داخلے کے تعلق سے کوئی شرط نہیں لگائی اور نہ لگانی چاہیے۔

ہمیں اختیار ہے کہ ہم گائے کی پوجا کریں، لیکن ہمیں یہ اختیار نہیں ہے کہ ہم دوسروں کو گائے کی پوجا کے لیے مجبور کر سکیں۔ ہم زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتے ہیں کہ گائے کے گوشت کھانے والوں کے ذہن کو چھوئیں۔ پھر مسلمانوں میں بیشتر گائے کا گوشت وہی لوگ کھاتے ہیں جو غریب ہیں اور غریب وہی لوگ ہیں جو کسی زمانے میں ہندوؤں سے تنگ آ کر مسلمان ہو گئے تھے۔ وہ ہندو سماج سے جلے ہوئے تھے اور اسے جلانا اور چِڑھانا چاہتے تھے۔ وہی روش ان میں اب تک چلی آتی ہے۔ جو مسلمان ہندوؤں کے پڑوس میں دیہاتوں میں رہتے ہیں، وہ گائے کے گوشت سے اتنی ہی نفرت کرتے ہیں جتنی عام ہندو۔ اس لیے اگر ہم چاہتے ہیں کہ مسلم بھی گئو بھکت ہوں، تو اس کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ ہمارے اور ان کے درمیان میں قربت ہو، یکسر ملاپ ہو۔ تبھی وہ ہمارے مذہبی اعتقاد کا احترام کریں گے۔

(ہندو مسلم ایکتا، نومبر 1931 کا اقتباس)


کیا ہم واقعی میں نیشنلسٹ ہیں؟

یہ تو ہم پہلے بھی جانتے تھے اور اب بھی جانتے ہیں کہ عام ہندوستانی نیشنلزم کا مطلب نہیں سمجھتا اور یہ جذبہ جس بیداری اور ذہنی نرمی سے پیدا ہوتا ہے، وہ ابھی ہم میں سے بہت تھوڑے لوگوں میں آیا ہے۔ لیکن اتنا ضرور سمجھتے تھے کہ جو رسالوں کے مدیر ہیں، نیشنلزم پر طویل طویل مضمون لکھتے ہیں اور نیشنلزم کے نام پر قربان ہونے والوں کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں، ان میں ضرور یہ بیداری آ گئی ہے اور وہ ذات پات کی بیڑیوں سے آزاد ہو چکے ہیں۔ لیکن ابھی حال میں 'بھارت' میں ایک مضمون دیکھ کر ہماری آنکھیں کھل گئیں اور یہ خراب تجربہ ہوا کہ ہم ابھی تک صرف منھ سے نیشنلزم-نیشنلزم کا شور مچاتے ہیں، ہمارے دلوں میں ابھی وہی ذات پات کی تاریکی چھائی ہوئی ہے۔

…شکایت ہے کہ ہم نے اپنی تین چوتھائی کہانیوں میں برہمنوں کو سیاہ رنگوں میں منقش کر کے اپنی کند ذہنی سے متعارف کرایا ہے جو ہماری تصنیفات پر نہ مٹنے والا داغ ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر ہم میں اتنی طاقت ہوتی، تو ہم اپنی ساری زندگی ہندو ذات کو پروہتوں، پجاریوں، پنڈوں اور مذہب کے نام پر زندہ رہنے والے جراثیموں سے آزاد کرانے میں قربان کر دیتے۔ ہندو ذات کا سب سے پراگندہ کوڑھ، سب سے شرمناک داغ یہی ٹکے پنتھی گروپ ہیں جو ایک بڑے جونک کی طرح اس کا خون چوس رہا ہے اور ہمارے نیشنلزم کے راستہ میں یہی سب سے بڑا رخنہ ہے۔


نیشنلزم کی پہلی شرط ہے سماج میں جذبہ مساوات کا مضبوط ہونا۔ اس کے بغیر نیشنلزم کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ جب تک یہاں ایک گروپ، سماج کی بھکتی، عقیدت، لاعلمی اور اندھی تقلید سے اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے بنا رہے گا، تب تک ہندو سماج کبھی بیدار نہ ہوگا۔ اور یہ گروپ دس پانچ لاکھ اشخاص کا نہیں، لاتعداد ہے۔ اس کا مشن یہی ہے کہ وہ ہندو ذات کو لاعلمی کی بیڑیوں میں جکڑے رکھے جس میں وہ ذرا بھی چوں نہ کر سکیں۔ مانو بری طاقتوں نے تاریکی اور بے علمی کی تشہیر کرنے کے لیے سویم سیوکوں کی یہ لاتعداد فوج تیار کر رکھی ہے۔ اگر ہندو سماج کو زمین سے مٹ نہیں جانا ہے تو اسے اس تاریک حکومت کو مٹانا ہوگا۔

(کیا ہم واقعی میں نیشنلسٹ ہیں؟ عنوان سے پریم چند کے خیالات حصہ 1 کا اقتباس)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔