اسرائیل کی تاریخی حقیقت کیا ہے؟

بنی اسرائیل سے متعلق تاریخی حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بہت سے نبیوں کو قتل کیا، جن میں ان کے اپنے قبیلہ کے حضرت زکریّا علیہ السلام اور حضرت یحیٰ علیہ السلام بھی شامل ہیں۔

user

قومی آواز بیورو

فلسطینیوں پر اسرائیل کی بربریت اور ظلم بدستور جاری ہے۔ تازہ اطلاعات ملنے تک اسرائیل کے فضائی حملوں میں 148 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں 29 معصوم بچے بھی شامل ہیں۔ ان حملوں میں 1300 سے زیادہ افراد شدید زخمی ہو گئے ہیں، جو اسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔ ادھر ان حملوں میں جہاں کئی کثیر منزلہ عمارتیں زمیں بوس ہو گئی ہیں وہیں کئی اسکولوں کی عمارتیں تباہ ہو گئی ہیں۔

اس بیچ ایک دس سالہ بچی کا ویڈیو وائرل ہو رہا ہے جس میں یہ بچی بلڈنگ کے ملبہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہے میں کیسے اسے سمیٹوں گی، میں تو دس سال کی ہوں۔ میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی۔ اپنے ہم عمر بچوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ہمیں سب کو جمع کرکے میزائل داغ دو۔

حضرت ابراھیم علیہ السلام کے بڑے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام تھے اور چھوٹے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام تھے۔ خانہ کعبہ حضرت ابراھیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے آج سے تقریباً 4000 سال قبل تعمیر کیا تھا البتہ رویات سے پتہ چلتا ہے کہ اسی جگہ پر سب سے پہلے حضرت آدم علیہ السلام نے خانہ کعبہ تعمیر کیا تھا۔ حضرت ابراھیم علیہ السلام نے فلسطین کے علاقہ بیت المقدّس میں بھی عبادت گاہ بنائی۔ حضرت اسحاق علیہ السلام بھی وہاں عبادت کرتے رہے مگر حج کے لئے وہ ہمیشہ مکّہ مکرمہ میں واقع خانہ کعبہ میں جاتے تھے۔


حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے حضرت یعقوب علیہ السلام تھے۔ اسرائیل حضرت یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا۔ اسرائیل کے معنی ہیں عبداللہ یا خدا کا بندہ۔ بنی اسرائیل ان کے قبیلہ کو کہا جاتا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے حضرت یوسف علیہ السلام تھے جو مصر کے بادشاہ بنے۔ بنی اسرائیل میں پھر حضرت موسی علیہ السلام مصر میں پیدا ہوۓ۔ ان کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام صحراۓ سینائی کے علاقہ میں پیدا ہوۓ جو بعد میں فلسطین چلے گئے۔

جب حضرت داؤد علیہ السلام نے انتہائی طاقتور دیو ہیکل جالوت (گولائتھ) کو اللہ کی نصرت سے غلیل سے پتھر مار کر گرا دیا تو فلسطین کے بادشاہ صول نے حسب وعدہ ان کی شادی اپنی بیٹی مشل سے کر دی۔ صول کے مرنے کے بعد حضرت داؤد علیہ السلام فلسطین کے بادشاہ بنے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام فلسطین کے بادشاہ بنے۔ اللہ سبحانہ و تعالی نے ہوا، جن اور ہر قسم کے جانور حضرت سلیمان علیہ السلام کے طابع کر دیئے تھے۔ قبل مسیح 961 سے قبل مسیح 922 کے دوران حضرت سلیمان علیہ السلام نے جنّوں کی مدد سے مسجد الاقصی اسی جگہ تعمیر کروائی جہاں حضرت ابراھیم علیہ السلام نے عبادت گاہ تعمیر کرائی تھی۔.586 قبل مسیح میں یہ ریاست دو حصوں میں تقسیم ہو گئی۔ جنوبی علاقہ پر بابل کے لوگوں نے قبضہ کرکے عبادت گاہ مسمار کر دی اور بنی اسرائیل کو وہاں سے نکال کر اپنا غلام بنا لیا۔


اس کے سو سال بعد بنی اسرائیل واپس آنے شرو ع ہوئے اور انہوں نے اپنی عبادت گاہ تعمیر کی، مگر اس جگہ نہیں جہاں حضرت سلیمان علیہ السلام نے عبادت گاہ بنوائی تھی۔ 333 قبل مسیح میں سکندراعظم نے اسے یونان کی سلطنت میں شامل کرکے بنی اسرائیل کو وہاں سے نکال دیا۔ 165 قبل مسیح میں بنی اسرائیل نے بغاوت کرکے ایک یہودی سلطنت کی بنیاد رکھی۔ سوسال بعد یہودی ریاست پر سلطنت روم کا قبضہ ہو گیا۔ 70 عیسوی میں یہودیوں نے بغاوت کی جسے شہنشاہ ٹائٹس نے کچل دیا اور یہودیوں کی عبادت گاہ کو مسمار کرکے انہیں وہاں سے نکال دیا۔ روم کے بادشاہ حیدریاں (138-118 عیسوی) نے یہودیوں کو شروع میں بیت المقدس آنے کی اجازت دی لیکن بغاوت کرنے پر بیت المقدس کے شہر کو مکمل طور پر تباہ کرکے یہودیوں کو غلاموں کے طور بیچ کر شہر بدر کر دیا اور ان کا واپس بیت المقدّس آنا ممنوع قرار دے دیا۔

614 عیسوی سے 624 عیسوی تک فلسطین پر ایرانیوں کی حکومت رہی اور بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے یہودیوں کو عبادت کرنے کی کھلی چھٹی دے دی تھی، مگر انہوں نے مسجد الاقصی میں عبادت نہ کی اور عرب عیسائیوں پر بہت ظلم کیے۔ اس کے بعد بازنطینی حکومت آئی جس نے 636 عیسوی میں مذہبی پیشوا کے کہنے پر بغیر جنگ کے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو محافظ اور امن کا پیامبر قرار دے کر بیت المقدس ان کے حوالے کر دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مسجد الاقصی کی تعمیر 639 عیسوی میں اس جگہ پر شروع کروائی جہاں پر حضرت سلیمان علیہ السلام نے تعمیر کروائی تھی۔ 636 سے 1918 عیسوی تک یعنی 1282 سال تک فلسطین پر جس میں اردن بھی شامل تھا، مسلمانوں کی حکومت رہی بس اس میں وہ عرصہ شامل نہیں ہے جس میں صلیبیوں یعنی عیسائوں سے جنگیں ہوئیں۔ اس وقت تک یہودیوں کو فلسطین سے باہر ہوۓ 1800 سال ہو چکے تھے۔


بنی اسرائیل کے متعلق تاریخی حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بہت سے نبیوں کو قتل کیا، جن میں ان کے اپنے قبیلہ کے حضرت زکریّا علیہ السلام اور حضرت یحی علیہ السلام بھی شامل ہیں۔ حضرت عیسی علیہ السلام بھی اسی قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کو بھی قتل کرنا چاہا مگر اللہ نے انہیں بچا لیا اور ان کے کسی ساتھی کو صلیب پر سولی پر چڑھا دیا۔ تاریخ گواہ ہے کہ یہودیوں نے ہمیشہ ظلم ڈھائے ہیں چاہے وہ نبی ہوں یا چاہے خلق خدا۔ آج بھی وہ یہی کر رہے ہیں۔

(بشکریہ گوگل)

Follow us: Facebook, Twitter, Google News

قومی آواز اب ٹیلی گرام پر بھی دستیاب ہے۔ ہمارے چینل (qaumiawaz@) کو جوائن کرنے کے لئے یہاں کلک کریں اور تازہ ترین خبروں سے اپ ڈیٹ رہیں۔


Published: 16 May 2021, 6:11 PM